رمضان سے پہلے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی عید


چند دنوں پہلے ایک ذخیرہ اندوز صاحب سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا کام کیسا جارہا ہے۔ کہنے لگا کام منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
”اورجناب کی منزل کیا ہے؟“
اس پر مسکرائے اور کہنے لگا۔
”ہماری منزل رمضان ہوتی ہے۔ آپ رمضان کے بعد عید کرتے ہیں جب کہ رمضان ہمارے لیے عید کا مہینہ ہوتا ہے۔“

ایک شخص سے سوال کیا : ”آپ رمضان میں مقرر کی گئی قیمتوں سے دگنا قیمتوں پر چیزیں بیچتے ہیں اور بیچتے وقت دعائیہ کلمات کہنا نہیں بھولتے، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟“
مسکراتے کہنے لگے : ”اس سے کاروبار میں برکت ہوتی ہے اور نظر بد سے کاروبار بچا رہتا ہے۔ میں کافر تو نہیں ہوں کہ دعاؤں سے بھی خود کو محروم رکھوں۔“

پھلوں سے لدے ٹرک کا مالک ٹرک میں بیٹھا ہوا تھا۔ پوچھا۔ اس بار کیا ارادے ہیں؟
کہنے لگے : ”بفضل خدا ایک شے کی چار گنا قیمت وصول کرنے کے بعد عید کے بعد امید ہے اتنے پیسے ہوجائیں گے کہ بیٹے کے لیے نئی ہونڈا کار سمیت بہت سی چیزیں لے لوں گا۔“

ہنس کر پوچھا: ”ایک مہینے میں اتنے پیسے کیسے ہو جائیں گے؟“
تمتماتے چہرے کے ساتھ جواب دیا گیا۔
”بھیا! رمضان ہمارا سٹاک ایکسچیج ہے جہاں ایک مہینے میں اتنا کاروبار ہوتا ہے جتنا عام  330 دنوں میں نہیں ہوتا۔“

ایک غریب پرور شخص جو کہ غالبا سبزیوں کے کاروبار سے منسلک تھے سے دست بستہ عرض کی :
”کہ جناب! جتنا آپ عام دنوں میں غریبوں کے واسطے اتنا دان دیتے ہیں رمضان میں اگر قیمتوں کا تھوڑا خیال رکھیں تو کافی غریب بھوکے مرنے سے بچ جائیں۔“

غصے سے لال پہلے ہوتے ہوئے کہنے لگے۔
میاں! دان کا ”ن“ ہٹاؤ اور ”ر“ لگا دو۔ یا تو میں دان کی جگہ دار پر چڑھتا ہوں یا انہیں چڑھا دو جن کی آپ باتیں کرتے ہو۔ دان بھی کروں اور ہر ایک کو خوش کروں۔ نہ میں ایسی صبر و شکر کرنے والی بہو ہوں کہ سب کو ہرحال میں خوش رکھوں اور نہ ہی کوئی لطیفہ سنانے والا تماشا گر ہوں کہ ہر ایک کو خوش کرتا پھروں اور سنو میاں! اسی مہینے کی برکت سے اتنا کما لیتا ہوں کہ باقی مہینے دان کرتا رہتا ہوں۔

مرغی کے ریٹ رمضان کے شروع ہونے سے قبل ہی مہنگائی کے افق پر جگمگا رہے تھے۔
ایک ڈیلر صاحب سے وجہ پوچھی۔
ہنس کر کہنے لگے۔

”برائلر بیچارا تو آرسینک ٹیکوں کی وجہ سے اٹھ بھی نہیں سکتا اس لیے ہم مصنوعی طور پر قیمتوں کو اٹھا دیتے ہیں تاکہ رمضان میں آپ کو مرغی زیادہ سوئی ہوئی محسوس نہ ہو۔“
میں باقاعدہ دیکھ رہا تھا کہ شعبان کے مہینے کا نصف ہوتے ہی مسجدیں سنور رہی تھیں۔ لوگ تراویح کے انتظامات کے حوالے سے گفتگو کررہے تھے۔ نئی چٹائیاں خریدی جا رہی تھیں۔ تبھی ایک شخص نے اعلان کیا اس دفعہ وہ نہ صرف افطاری کے انتظامات کرے گا بلکہ مسجد میں چٹائیوں اور باقی ضروری شے بھی فراہم کرے گا۔ ان کے جذبے کو خوب سراہا گیا اور رو رو کر ان کے کاروبار میں اضافے کے لیے دعا کی گئی۔ بعد میں علم ہوا موصوف رمضان کے کنگ ذخیرہ اندوزوں میں سے ایک ہیں اور ذخیرہ اندوزی ہی ان کا کاروبار ہے۔

ایک شخص سے سوال کیا۔
جناب رمضان میں آپ پاکستانی مسلمانوں اور مغربی کافروں کا کیسے موازنہ کرتے ہیں۔

ہنس کر کہنے لگے۔
”ان کا ضمیر رمضان میں جاگ جاتا ہے اس لیے رمضان میں وہ مسلمانوں کے لیے خصوصی پیکجز کا اعلان کرتے ہیں اور سارا دن کاروبار کرنے کی وجہ سے ہمارے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کا ضمیر سو جاتا ہے۔“

ایک صاحب جو کھجوروں کے بہت بڑے بیوپاری تھے انہوں نے رمضان سے ایک مہینہ قبل کھجوروں کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے یہ جملہ لکھا۔
کھجوریں خریدیں اس سے پہلے کہ رمضان میں کھجوریں اتنی مہنگی ہوجائیں کہ آپ ان کی خوشبو کو ترسیں۔
دراصل غور کرنے پر علم ہوا کہ رمضان دراصل غریبوں کے لیے صبر اور شکر کا مہینہ اور منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کے لیے عید کا مہینہ ہے۔ وہ رمضان میں عید سے پہلے عید کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).