’ہم اچھے ملک میں نہیں رہتے یار، ہم کسی کو نہیں بچا سکتے! ‘


’ہم اچھے ملک میں نہیں رہتے یار، ہم کسی کو نہیں بچا سکتے! ‘ یہ وہ الفاظ تھے جومعصوم نشوا کے والد نے اپنی ننھی پری کے اس دنیا میں نہ رہنے کی تصدیق کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہے لیکن دکھ، درد، اورغم میں ڈوبے یہ الفاظ صرف نشوا کے بے بس والد کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ہراس شہری کے ہیں جس نے کبھی کسی کی غفلت، کسی حادثے یا کسی سانحے میں اپنے پیارے کو گنوادیا۔

یہ الفاظ ہر اس ماں کے ہیں جس کا بیٹا کبھی دہشتگردی کے خلاف لڑتے لڑتے مر جاتا ہے یا خود دہشتگردی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ الفاظ ہران والدین کے ہیں جن کی اولاد کو کبھی پولیس تو کبھی چورڈاکوؤں کی اندھی گولی کھا جاتی ہے۔ یہ الفاظ ہر اس باپ کے ہیں جس کی بیٹی کبھی کسی بھیڑئیے کی درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے یامعاشرتی روایات سے بغاوت کرنے پرموت کی ابدی نیند سلا دی جاتی ہے۔ یہ الفاظ ہراس بیوی کے بھی ہوں گے جس کاشوہر دن دھاڑے کبھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن جاتا ہے۔

یہ جذبات یقینا ان یتیم بچوں کو بھی ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے کبھی ان کے ماں باپ اور بہن کودہشتگردقرار دے کرقتل کردیا جاتا ہے تو کبھی کسی کے باپ بھائی بیٹے یا ماں بہن بیٹی کو توہین مذہب کا الزام لگا کرسرے عام چوراہوں پر سزائے موت دے دی جاتی ہے اور وہ بے بس لاچاری کی تصویر بنے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ آخرمرنے والوں کا جرم کیا تھا۔ لیکن کبھی ملزمان کا تعین نہیں ہوتا تو کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ نامعلوم افراد ہمیشہ نامعلوم ہی رہتے ہیں۔

بے بسی اور لاچاری کا عالم یہ ہے کہ چاہے آپ اعلی پولیس آفیسر طاہر داوڑ ہوں یا پھر اورماڑہ جانے والی بس کے مسافر، آپ چاہے ارمان لونی ہوں یا سانحہ ساہیوال میں مرنے والے ذیشان، آپ چاہے آفس سے گھر جانے والے موٹر سائیکل سوارہوں یا گھر سے کالج جانے والے طالبعلم، آپ علاج کے لیے اسپتال جانے والے مریض ہوں یا اسپتال سے صحت یاب ہو کر گھر آنے والے کار سوار، آپ اپنی ڈیوٹی نبھاتے کوئی پولیس اہلکار ہوں یا ڈیوٹی ختم کر کے گھر جاتے پولیس آفیسر، آپ انتخابی مہم لڑنے والے کوئی امیدوار ہوں یا مستقبل کے معماروں کو پڑھانے والے کوئی استاد، آپ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیم کی سیکیورٹی پرمامور اہلکار ہوں یا کسی اعلی عہدیدار کے محافظ، آپ چاہے صحافی ہیں یا پروفیسر یا مشال خان، یہاں کسی کی سکیورٹی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ کوئی بھی گولی آپ کو کسی وقت کہیں بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔ کوئی بھی آپ کو دہشتگرد کہہ کر یا توہین مذہب کا الزام لگا کر یا سیلف ڈیفنس کے نام پرنشانہ بنا سکتا ہے۔ ہم کسی کو نہیں بچاسکتے!

ہاں لیکن ہم بچا سکتے ہیں اپنے ملک کو، اپنے پاکستان کو، اپنی آنے والی نسلوں کو! ہم بچا سکتے ہیں اپنے سسٹم کو! ہم بچا سکتے ہیں اپنے اداروں کو اپنے رویے میں تبدیلی لا کر۔ تربیت اور رویوں کی تبدیلی کی شروعات اپنے آپ سے کر کے۔ اپنے رویوں میں سنجیدگی لا کر۔ کوئی عمل کوئی کام کوئی نیکی کو ئی بھی قدم محض سیلفی بنوانے اورمیڈیا کے لیے فوٹو شوٹ کے لیے نہیں اٹھانا، اگر ہم ملک میں معاشرے میں سسٹم میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو تبدیلی کی شروعات ہم کو اپنی ذات سے کرنا ہوگی۔

احتساب کا عمل سیاست دانوں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے کرناہوگا۔ ہمیں اپنے رویوں کا احتساب کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے قول و فعل کا احتساب کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیاہم اپنے ملک کو بچاناچاہتے ہیں؟ کیا اپنے سسٹم کو بچانا؟ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا ہے؟ کیا ہم اپنے رویوں میں سنجیدہ ہیں؟ کیا ہم اپنی نیتوں میں مخلص ہیں؟ ہماری زندگی کا مقصد صرف ذاتی مفاد ہے یا ہمارے اوپر کوئی معاشرتی ذمہ دار بھی عائد ہوتی ہے؟ کیا ہمارا مقصد صرف اپنی اپنی پسند کے قائدین کے غیر سنجیدہ رویوں کا ہر پلیٹ فارم میں دفع کرنا اوران کی اندھی تقلید کرنا ہے؟ اگر ہم اب بھی سچ کو سچ اور غلط کو غلط نہ کہا، اگر اب بھی ہم نے رویے تبدیل نہ کیے تو یقینا ہم اس ملک میں کسی کو نہیں بچا سکتے۔ ہم ایک کے بعد ایک حادثے اورایک کے بعد دوسرے سانحے کے منتظر رہیں گے!
فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).