وزیراعظم کے مغالطے!


کچھ عرصہ سے ایک کتاب کا سرورق سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے، کتا ب کا عنوان ”پاکستانیوں کے مغالطے“ کافی پرکشش ہے اور لامحالہ انسان کا دل چاہتا ہے کہ اسے ضرور پڑھا جائے لیکن کیا کریں شومی قسمت سے ابھی تک اس سعادت سے محروم ہیں۔ دل نے تسلی دی کہ آپ خود بھی تو پاکستانی ہو جو آپ کے مغالطے ہوں گے دوسرے پاکستانیوں کے مغالطے ان سے چنداں مختلف نہ ہوں گے ، جون ایلیا کی سنو اور اس پہ سر دھنو!

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم

ضد میں آ کر دل کو کہا کہ ذرا گنواؤ تو کون سے مغالطے ہیں ہمارے۔ خدا کی قسم دل نے دو تین ہی گنوائے ہوں گے کہ سر پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور بات بدلنے کے لیے کہا کہ ہم ٹھہرے عام آدمی، ہمارے مغالطوں کی کیا اہمیت ہے کیوں نہ کسی بڑے آدمی کے مغالطوں پر غور کیا جائے۔ اس وقت سب سے بڑے آدمی تو ہمارے وزیراعظم ہی ہیں چلو ان کے مغالطے ڈسکس کریں۔

دل نے کہا ابے او ناہنجار آدمی! اپنی اوقات میں رہو، تمہیں پتہ بھی ہے اس وقت ہمارا وزیراعظم کوئی للو پنجو پرچی سے دیکھ کے پڑھنے والا آدمی نہیں ہے بلکہ آکسفورڈ کے گریجویٹ عزت مآب خان خاناں ہیں اور ان کو مغالطے نہیں ہوتے ان جیسا سکالر آدمی روئے زمین نے نہ ماضی قریب میں دیکھا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب و بعید میں اس کے کچھ امکان ہیں ہا ں البتہ ماضی بعید کو استثنا حاصل ہے، تم ان کا کوئی ایک مغالطہ تو بتاؤ۔

میں نے کہا ان کو کچھ پتہ ہوتا نہیں ہے بس ایسے ہی بے پر کی اڑا دیتے ہیں۔ دل بھیا بھڑک اٹھے اور فرمایا منہ سنبھال کے بات کرو، ان کے علم کا بحرالکاہل اپنے اندر مذہب، تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ، معیشت، معاشرت حتی کہ بیالوجی، ریاضی، فزکس اور کیمیا جیسے دقیق علوم کو ایسے ہی سموئے ہوئے ہے جیسے مرغی اپنے پروں کے نیچے رنگ برنگے چوزوں کو سمو لیتی ہے اور وہ اپنی چونچیں نکال نکال کے دیکھنے والوں کو حیران و پریشان کردیتے ہیں۔

(حیراں ہیں، لب بستہ ہیں، دلگیر ہیں غنچے )

ہمیں کچھ مضطرب سا دیکھ کر دل مثالیں دینے پر اتر آیا۔ بہتیرا کہا کہ دل بھیا جانے دو کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں لیکن وہ دل ہی کیا جو مان جائے۔

کہنے لگا خان صاحب عربی زبان و بیان کے ماہرہیں جس کا اظہار انہوں نے حلف کی تقریب میں خاتم النبیون کی صحیح ادائیگی کر کے کیا تھا اور یہ کہ انہوں نے قرآن “پڑھی ہوئی” ہے۔ پھر حضرت عیسی ؑ کے بارے میں ان کے ارشادات تو آپ نے سن ہی رکھے ہیں۔ پھر نبی ؑ کی محنت کے ساتھ ان کی محنت کی مشابہت سبحان اللہ!

تاریخ کے باب میں ان کا علم اتنا وسیع ہے کہ آج تک جس جنگ کو سبھی لوگ جنگ قادسیہ کہتے رہے ہیں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ یہ اصل میں جنگ قدسیہ تھی۔ اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کی لڑائی کا حال تو ابھی تازہ تازہ انہوں نے واضح کیا ہے۔

فزکس کو لے لو اور اللہ کو حاضر ناظر جان کے بتلاؤ کہ لائیٹ کی سپیڈ (سپیڈ کی لائٹ) سے ٹرینیں چلوانا کسی عام انسان کے بس کی بات ہے۔ ہاں کیمسٹری کے معاملے میں انہیں ہمارے سابق چیف جسٹس نے پانی کا فارمولا ایچ ٹو زیرو دریافت کر کے زیر کر لیا ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ وہ پانی کے معاملے پہ کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوئے ہیں اور اس میں ید طولی رکھتے ہیں۔

میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا تو کہا کہ وہ اپنے زہدو تقوی کو مشہور کر کے لوگوں میں دکھاوا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ اس پہ یقین کرتے ہیں۔ دل کہاں چپ رہتا، کہنے لگا لوگ تو مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں کے کپڑوں کو پیوند لگے ہوتے تھے یہ درویش آدمی تو پیوند بھی نہیں لگاتا اور ویسے ہی ٹک لگے کپڑے پہن کے عام عوام میں گھل مل جاتا ہے اور اپنے فقر و زہد کو چھپانے کی اتنی کوشش کرتاہے لیکن بر ا ہو ان میڈیا والوں کا پھر بھی ٹک اچک لیتے ہیں اور اس کی تصوریں اتار کر عام کر دیتے ہیں۔ مدینہ طیبہ جہاں اتنی گرمی پڑتی ہے، وہاں جوتے اتار کے چلتا ہے (حالانکہ وہاں تو صحابہ بھی جوتے پہن لیتے تھے ) ۔ اگر کوئی اور آدمی ایسا کرتا تو لوگ اسے دکھاوا سمجھتے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان پر لوگوں کو اعتماد ہی اتنا ہے کہ وہ اسے دکھاوا بالکل بھی نہیں سمجھتے بلکہ من و عن درست تسلیم کر لیتے ہیں۔

دل کی توجیہات سے میں وزیراعظم کے ”گھبرانا نہیں ہے“ والے حکم کو بالائے تاک رکھتے ہوئے گھبرا گیا اور کہا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے جھوٹ پہ یقین آگیا ہے۔ اس بات پہ دل مجھ سے بھی زیادہ گھبرا گیا اور کہنے لگا تم ہو ہی اس قابل کہ تم پر وہی پرانے لوگ نسل در نسل مسلط رہیں، خدا خدا کر کے اتنی مشکلوں سے ایک دیدہ ور نے، جس کے لیے ہزاروں سال نرگس روتی ہے، اس قوم کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور ایک تم جیسے لوگ ہیں جو ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، شرم تو آتی نہیں ہے تم لوگوں کو، یہ تمھارے جیسے لوگ ہی ہیں جو اس قوم کے لیے باعث عار ہیں، اپنا منہ دیکھا ہے کبھی، اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے سچا اور کھرا ہونے کی ایک دنیا گواہ ہے۔

کتنے ہی صحافی رات کو بیٹھ کے بتاتے ہیں کہ جو معاملات خراب ہو رہے ہیں ان کا خان صاحب کو علم ہی نہیں ہوتا ورنہ وہ اس کو ایک لمحے میں ٹھیک کر دیتے۔ خان صاحب نے تم لوگوں کی عزت نفس کو اس قدر اعلی و ارفع مقام پر پہنچا دیا ہے کہ فرانس کا صدر کال کر کے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو تمہارا وزیراعظم لمحہ واحد میں انکار کر دیتا ہے کہ وہ مصروف ہے، کوئی اور شخص وزیراعظم ہوتا تو فورا ساری مصروفیات ترک کر کے فون سننے لپکتا اور اپنی میٹنگ میں بیٹھے صحافیوں کو ویسے ہی چھوڑ جاتا۔ نا شکرے کہیں کے!

حیراں ہوں روؤوں دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).