پنجاب کی تباہی میں خالصہ فوج کا کردار


جلد ہی دھیان سنگھ اور شیر سنگھ اس خیال سے لاہور سے باہر نکلے کہ فوج کو اپنے قابو میں لا کر مہا رانی چند کور کے خلاف لاہور پر ہلا بول دیا جائے۔ اب سردار اتّر سنگھ وزارت کا کام کرنے لگا۔ جوالا سنگھ، شیر سنگھ کا وکیل ’فوجی پنچوں‘ کے پاس پہنچا۔ اور یہ بات طے کی کہ ”آپ شیر سنگھ کو مہا راجا بنانے میں مدد کرو۔ تخت حاصل ہو جانے پر ہر سپاہی کو ایک ’بُتکی‘ اور ہر ’پنچ‘ کو ایک ’کینٹھا‘ انعام دیا جائے گا۔ تنخواہ میں ہر سپاہی کا ایک روپیہ اور ہر سردار کا پانچ روپے اضافہ کیا جائے گا۔ یہ سن کر فوج تیار ہو گئی کہ شیر سنگھ آئے ہم مدد کے لیے تیار ہیں۔ جوالا سنگھ نے رات دن محنت کر کے شیر سنگھ کے لیے میدان تیار کیا۔ کیونکہ شیر سنگھ کے ساتھ تحریری اقرار ہو چکا تھا کہ اگر وہ دھیان سنگھ کی مدد کے بغیر بادشاہ بن گیا تو جوالا سنگھ کو وزیر بنائے گا۔ راجا دھیان سنگھ خود تو جموں چلا گیا لیکن پیچھے اس کے کارندوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ فوج میں یہ بات پھیلائی گئی کہ ’فوجی پنچوں‘ کو مہا رانی چند کور نے راج بدلنے کی خوشی میں انعام نہیں دیا۔ اگر ’شیر سنگھ‘ تخت پر بیٹھتا تو فوج کو انعام دیا جاتا اور تنخواہ میں اضافہ بھی کیا جاتا۔ اور یہ کہ سندھا والیے انگریزوں کے ساتھی ہیں اور جلد ہی پنجاب کو انگریزوں کے حوالے کر دیں گے۔

ڈوگروں کا یہ جادو چل گیا۔ فوج میں اس بات کی چرچا ہونے لگی۔ دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ ڈوگرا نے موقع تاڑتے ہوئے فوج کے افسروں سے مخاطب ہو کر کہا: ”جب مہا راجا رنجیت سنگھ کا دوسرا بیٹا ’شیر سنگھ‘ گدی کے لائق ہے تو آپ (یعنی فوج) نے اسے کیوں نہیں بادشاہ بنایا؟ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ شیر سنگھ کے بادشاہ بننے پر تنخواہ بھی بڑھے گی اور انعام بھی ملے گا۔ مجھے حیرانی ہے کہ آپ مرد ہو کر ایک عورت کا راج کس طرح قبول کیے بیٹھے ہیں؟ “ اس جیسی تقریریں سن کر فوج مان گئی کہ ہم شیر سنگھ کی مدد کے لیے تیار ہیں۔

دوسری طرف چند کور کے طرف دار گلاب سنگھ، سچیت سنگھ اور سندھا والیے شیر سنگھ سے ٹکرانے کی تیاری کرنے لگے۔ گلاب سنگھ نے دل کھول کر اپنی ڈوگرا فوج میں پیسے تقسیم کیے۔ ہر فوجی کو چار مہینے کی تنخواہ پیشگی دی گئی۔ رسد اور جنگی سامان اکٹھا کر کے وہ قلعہ بند ہو گئے۔ شیر سنگھ نے بھی اپنے پاس موجود پیسے فوج میں بانٹ دیے اور 50 ہزار سے زائد فوج لے کر وہ یکی، دلی اور ٹکسالی دروازے سے شہر میں داخل ہوا۔ اس نے آگے بڑھتے ہوئے حضوری باغ اور بادشاہی مسجد میں گلاب سنگھ کے اکٹھے کیے ہوئے جنگی ساز و سامان پر قبضہ کر لیا۔ یہ لڑائی پانچ دن جاری رہی۔ آخر دھیان سنگھ نے ان چار شرائط پر صلح کروائی:

• یہ کہ ’مہا رانی چند کور‘ کو نو لاکھ سالانہ کی جاگیر جموں کے قریب دی جائے گی، جس کا مختار گلاب سنگھ ہو گا۔

• مہا رانی چند کور کو زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کی آزادی ہو گی۔

• قلعے سے ڈوگرا فوج نشان لہراتی ہوئی باہر چلی جائے گی۔ اِس کام میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے گی (یعنی حملہ نہ کیا جائے گا) ۔

• ان شرائط پر عمل درآمد کرانے کے لیے ضمانت دی جائے۔

ادھر گلاب سنگھ شاہی خزانے سے، چند کور کے سامان کے بہانے، زیورات اور ہیرے جواہرات لاد کر جموں لے گیا۔ شیر سنگھ جب قلعے میں داخل ہوا تو خزانہ خالی پایا۔

18 جنوری 1841 شیر سنگھ کا لاہور پر قبضہ ہو گیا۔ 21 جنوری کو بڑی دھوم دھام سے تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی۔ کوہ نور کو چھوڑ کر، گلاب سنگھ سارا خزانہ نکال کر لے جا چکا تھا۔ بڑی مشکل سے فوج کے ساتھ کیے گئے اقرار پورے ہوئے۔ انعام دیے اور تنخواہ بڑھائی۔

شیر سنگھ کے مہا راجا بن جانے کے بعد دھیان سنگھ نے وزارت کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سندھاوالیے سردار ’اَتّر سنگھ‘ اور ’اجیت سنگھ‘ بھاگ کر تھانیسر چلے گئے۔ جب کہ ’لہنا سنگھ‘ کو اس کی اپنی فوج نے ہی منڈی کے علاقے میں قید کر لیا۔ بعد میں ’لہنا سنگھ‘ اور اس کا بھتیجا ’قہر سنگھ‘ کو لاہور میں قید رکھا گیا۔ اس دوران خالصہ فوج اپنے افسروں کے ہاتھوں سے بے قابو ہو گئی۔ سپاہیوں کو جن افسروں سے خار تھی ان سے چن چن کے بدلے لیے جانے لگے۔ کشمیر کی فوج نے اپنے جرنیل ’مہاں سنگھ‘ کو قتل کر کے اس کا گھر لوٹ لیا۔ کئی افسر جان بچا کر بھاگ نکلے۔ شیر سنگھ کو مہا راجا بنانے کے لیے جوالا سنگھ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ اسے یہ بات اچھی نہ لگی کہ اس کی محنت کا پھل اسے نہ ملے اور دھیان سنگھ ڈوگرا وزیر بن جائے۔ دوسری طرف دھیان سنگھ نہیں چاہتا تھا کہ جوالا سنگھ مہا راجے کے ساتھ اپنا رسوخ بڑھائے۔ ڈوگروں نے مہا راجا کو بہکانا شروع کیا کہ جوالا سنگھ سندھا والیوں کے ساتھ مل گیا ہے۔ ان کی آپس میں خط کتابت چل رہی ہے۔ سندھا والیے انگریزوں کے ساتھ مل کر ’کنور پشورا سنگھ‘ کو تخت پر بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈوگرے وزیر نے چند فرضی خط بھی مہا راجے کو دکھائے۔

شیر سنگھ، جوالا سنگھ کے خلاف ہو گیا اور اسے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دھیان سنگھ نے اسے بلانے کے لیے اپنے آدمی بھیجے جو (چال کے مطابق) آدھے رستےہی سے واپس آ گئے۔ دھیان سنگھ نے مہا راجا شیر سنگھ کو بتایا کہ وہ (جوالا سنگھ) آنے سے انکاری ہو گیا ہے۔ مہا راجا نے دوبارہ حکم بھیجا۔ دوسرا آدمی بھی رستے ہی سے وا پس آ گیا اور کہا کہ جوالا سنگھ نے حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اب مہا راجا سے ٹکرانے کی تیاری کر رہا ہے۔ آخر مہا راجا شیر سنگھ نے غصے میں جوالا سنگھ کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔

یہ خبر جب جوالا سنگھ تک پہنچی تو فورا مہا راجے کے پاس حاضر ہوا۔ اسے امید تھی کی اپنی پچھلی خدمتوں کے عوض اسے معافی مل جائے گی۔ لیکن ڈوگروں کے بھڑکائے ہوئے مہا راجا شیر سنگھ نے ملاقات کی اجازت نہ دی۔ مئی 1841 کو جوالا سنگھ اپنے جانی دشمن دھیان سنگھ کی نگرانی میں قید کر لیا گیا۔ اب مہا راجے کے سامنے جوالا سنگھ کی رہائی کے لیے سفارشیں پیش ہونے لگیں۔ ایک مہینے کے بعد دھیان سنگھ نے جوالا سنگھ کو شیخو پورہ بھیج دیا۔ جہاں سزا پہلے سے زیادہ سخت ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد مہا راجے تک یہ اطلاع پہنچائی گئی کہ جوالا سنگھ شیخو پورے میں قید کے دوران قدرتی موت مر گیا ہے۔

اب دھیان سنگھ کھلی من مرضیاں کرنے لگا۔ مہا راجا شیر سنگھ نے روکنے کی کوشش کی جس سے ان کی آپس میں ان بن رہنے لگی۔ ’گیانی گرمکھ سنگھ‘ نے مہا راجے کو مشورہ دیا کہ ڈوگروں کا زور توڑنے والے سندھا والیے ہی ہیں۔ ان سے میل جول بڑھایا جائے اور ان کی جاگیریں بحال کر دی جائیں۔ یہ بات مہا راجے کے دل کو لگی۔ چناںچہ سندھا والیے سردار لہنا سنگھ اور قہر سنگھ آزاد کر دیے گئے۔ اجیت سنگھ بھی باہر سے آ گیا۔

ان تینوں کو چھے لاکھ سالانہ کی جاگیریں دی گئیں اور ان کے عہدے بھی بحال کر دیے۔

اب مہا راجے اور وزیر کی دشمنی کھلم کھلا ہو گئی۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2