یہ ہوتا ہے عوامی بیداری کا ثمر


دونوں قبیلوں ( ہُو تو اور تُو تسی ) کے درمیان دشمنی تو کئی عشروں سے جاری تھی لیکن چھ اپریل انیس سو چورانوے کو رونڈا کا صدر جے ویل ہیپی ارمانا (جس کا تعلق ہُو تو قبیلے سے تھا اپنے ہمسایہ ملک برونڈی کے صدر سپرین نیٹرین میرا کے ساتھ دارالحکومت کیگالی کے قریب پراسرار فضائی حادثے میں مارے گئے تو چند گھنٹے بعد پورا ملک رونڈا ایسے خوفناک فسادات اور قتل و غارت کی لپیٹ میں آیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔

دونوں قبائل خصوصًا ہُوتو قبیلے کی غضب اور وحشت ایسی تھی کہ درندے بھی پناہ مانگیں۔
آپ اندازہ لگائیں کہ دارالحکومت کیگالی کے ایک ہی شاھراہ پر صرف ستر منٹ کے اندر اندر ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو مارا گیا۔ یہ فسادات اپریل سے جولائی تک سو دن جاری رہے اور اس مختصر وقت میں دس لاکھ سے زائد لاشیں گرائی گئیں، فسادات اتنے شدید تھے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے۔

اب صورتحال یہ ہوئی تھی کہ پورے رونڈا میں زندگی اجنبی اور موت ایک جانی پہچانی شے بن گئی تھی قریب تھا کہ بچی کچی زندگی بھی اگلے کچھ دنوں میں موت کا لقمہ بن جائے لیکن رونڈا کے بیدار اور دلیر عوام میدان میں نکل آئے اور امن کی خواہش رکھنے والے سیاسی لیڈروں اور قبائلی سرداروں کو ساتھ ملایا اور اپنے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔

اگلے چند دنوں میں عوام نے شدت پسند گروہوں اور افراد پر قابو پایا اور انھیں ملکی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا جس نے حکم مانا اسے جانے دیا اور جسنے مزاحمت کی اسے مار ڈالا۔ روانڈا یکم جولائی انیس سو باسٹھ کو بلجیئم سے آزاد ہوا تھا لیکن تب سے غربت اور خانہ جنگی کا شکار چلا آرہا تھا۔

اگست یعنی اگلے مہینے تک قتل وغارت رُک چکی تھی اور امن بحال ہونا شروع ہوا تھا لیکن عوام اور سیاسی لیڈرز مستقبل کو ہمیشہ کے لئے محفوظ اور رونڈا کو ترقی یافتہ بنانے کا مضبوط اور پر خلوص ارادہ کر چکے تھے اس لئے وہ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے بلکہ جس کا جتنا بس چلا اتنا ہی کام کیا گویا ہر ایک نے اپنے حصے کی شمع جلائی۔

اب آتے ہیں موجودہ رونڈا کی طرف!

براعظم افریقہ کے اس چھوٹے سے لیکن انتہائی سرسبز اور خوب صورت ملکُ کی سرحدیں یوگنڈا، تنزانیہ، برونڈی اور کانگو سے ملتی ہیں۔ اس ملک کی زمین قدرت نے ڈائمنڈ سے بھر دی ہے سر سبز ہونے کی وجہ سے لائیوسٹاک (مویشی) یہاں کی ایک بڑی صنعت ہے گزشتہ بیس سال میں رونڈا نے ٹیکسٹا ئل اور کیمیکل کی صنعتوں کو بھی توجہ دی اور اس سلسلے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بھادر قوم نے جمہوری عمل کو تسلسل اور مضبوطی بھی فراہم کی۔

اس وقت رونڈا میں جمہوری صدارتی طرز حکومت ہے۔

مقبول سیاسی رہنما پال کاگین صدر جمہوریہ اور ایڈور ڈناٹ رینے وزیراعظم ہیں۔

آپ حیران ہوں گے کہ پوری دنیا میں خواتیں ممبران پارلیمان کا سب سے زیادہ تناسب یعنی چونسٹھ فیصد رونڈا میں ہی ہے،

لیکن ٹھہرئیے!
حیرت ابھی کہاں ختم ہوئی ماضی قریب میں قتل و غارت اور غربت سے پہچانی جانے والی رونڈا کا جی ڈی پی 24.717 ارب ڈالر ہے۔

فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔
گزشتہ چھ سال کے اندر ایک ملیئن سے زائد لوگ خط غربت سے نکلے۔ نوے فیصد لوگوں کو ہیلتھ انشورنس حاصل ہے۔

سکولوں میں بچوں کی حاضری اکیا نوے فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب رونڈا کے دروازے پر دستکیں دے رہا ہے اور فورجی تک رسائی ہوگئی ہے۔ پارک، ہاسٹلز، سکولز، ٹیکسی سٹینڈز اور ہسپتالوں میں وائی فائی فری ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ صرف یورپی یونین میں پلاسٹک کے تھیلوں سے ساڑھے تین ملئین ٹن کاربن اور فضلہ بن کر آلودگی کا زہر پھیلا رہا ہے لیکن پورا رونڈا پلوشن فری ہے کیونکہ حکومت نے پلاسٹک کے تھیلوں پر نہ صرف پابندی لگادی ہے بلکہ ہر مہینے کے آخری دن صدر جمہوریہ اور عوام مل کر قومی کمیونٹی سروس میں حصہ لے کر گلی کوچوں کی صفائی کرتے ہیں۔

اس ملک کو افریقہ کاسنگاپورکہا جاتا ہے لیکن روانڈا کا دعوٰی ہے کہ اگلے چند سالوں میں دنیاکے سامنے وژن اور ترقی کی ایک ہی مثال رہے گی اوراس مثال کا نام ہوگا۔ روانڈا۔

لیکن یاد رہے کہ یہ معجزہ روانڈاکے عوام نے کر دکھایا جنھوں نے چند ہفتوں کا عذاب سہہ لیاآور اس سے کامیابی کا راستہ نکالا۔

یہ کام ان لوگوں کا ہرگز نہیں جنھیں یہ تک پتہ نہیں کہ ہماری نسل در نسل زندگی اجیرن کیونکر بنی
اور کامیابی کا راستہ کہاں سے ہو کے جاتاہے

فی الحال تو ا نہیں گالیوں اور تالیوں میں کامیابی نظر آرہی ہے۔ سوچ اور دانائی سے یقینًا کامرانی پھوٹتی ہے لیکن وہ وقت ابھی نہیں آیا۔
دلّی ہنوزدوراست

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).