حدیقہ کیانی نے زندگی کو برسوں میں ناپنا نہیں سیکھا


میری پچاسویں سالگرہ تھی اور میں بہت خوش تھی۔

زندگی کے سٹیج پہ پچاس سال گزار دینا اورپدرسری معاشرے میں اپنے دل، روح اور شگفتگی کو قائم رکھنا ایک کمال ہی تو ہے۔

ہمارے بچوں کا خیال تھا کہ اماں کی پچاسویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منائی جائے ہم بھی راضی تھے۔ سو دعوت نامے بھیجنے کی دیر تھی کہ حیرانی بھرے فون آنے لگے

“کیا واقعی پچاس سال ؟“

“مگر ضرورت کیا تھی، پچاس سال بتانے کی؟ “

“ تم نظر تو پچاس کی نہیں آتی ہو “

“ یار ! اب تمہارے ساتھ ساتھ ہماری عمر کا بھی اندازہ ہو جائے گا “

“ بندے کو اتنا بھی بولڈ نہیں ہونا چاہیے “

یہ اور ایسے بہت سے مکالمے ہم نے سنے اپنے دوستوں سے ۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دئے

پاکستانی عورت کو چھوٹا بننے اور چھوٹا نظر آنے کا جنون ہے اور اس شوق کے ہاتھوں تقریباً ہر دوسری عورت اپنے سے ذرا سی بڑی عورت کو آنٹی پکارتی ہے۔

حال میں ہی حدیقہ کیانی پہ کسا جانے والا فقرہ اس کا ثبوت ہے، حالانکہ اگر حدیقہ جیسی سمارٹ، خوش شکل اور گریس فل خاتون، دنیا سے ریٹائر ہو جانے والی آنٹی ہے تو پھر بہت سی نوجوان اور جوان لڑکیوں کو چلو بھر پانی تلاش کرنا چاہیے۔

حدیقہ کو ہم اس کے بچپن کے ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ اپنی بڑی بہن عارفہ اور بھائی عرفان کے ساتھ لیاقت میموریل ہال راولپنڈی میں موسیقی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ ہم تقریری مقابلوں کے شیر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں بھی ان کی آواز کا سوز نشاندہی کرتا تھا کہ ان کی منزل بہت آگے ہے۔ ان کا دوسرا پڑاؤ لاہور ٹی وی تھا اور پھر اتفاق دیکھیے کہ ہم اس پروگرام کے میزبان تھے۔ حدیقہ نے زینہ بہ زینہ شہرت کی کامیابیاں سمیٹیں اور آج اس کے دامن میں اتنا کچھ ہے کہ اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے، گلاب گلاب ہی رہے گا۔

شاید ان صاحبہ کو معلوم نہیں، جنہوں نے نہ جانے کس زعم میں یہ پھبتی کسی ہے کہ ہر کامیاب اور دنیا فتح کر لینے والی عورت کے چہرے پہ نظر آنے والی ہر شکن، جلد پہ چمکنے والے تمام نشان، سر میں جھلکتی چاندی تو ایک افتخار ہوتا ہے ایک ایسی زندگی کا، جس کے ہر ورق پر تجربات، احساسات اور کامیابیوں کی کہکشاں دوسروں کی آنکھیں چندھیاتی ہیں۔

اور چلیے مان لیا، پچاس کے ہو گئے، آنٹی کہلانے کے حقدار بھی ہو گئے تو کیا اپنا گلا گھونٹ لیں یا دنیا تیاگ دیں کہ رنگ، روشنی، ہوا، خوشبو، لہریں، برسات کی رم جھم اور چاندنی، غرض دنیا کی تمام خوبصورتیاں آنٹیوں کے لئے حرام قرار دی گئی ہیں ۔

پاکستانی معاشرے کا یہ نظریہ کہ بڑھتی عمر کے ساتھ عورت پہ زندگی کی ہماہمی کے دروازے بند ہونے چاہئیں اور اسے صرف قبر میں پہنچنے کی تیاری کرنی چاہیے، انتہائی پامال سوچ کا عکس ہے۔ زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنا اوراس سے ذرا سا بھی باہر جھانکنے سے فتوی لگا دینا معاشرے کا چلن سا ہو چلا ہے۔ اور عورت بھی نادانستگی میں اس کا حصہ بن رہی ہے غریب کو علم ہی نہیں کہ اپنی مرضی سے آسمان کی وسعتوں میں اپنے پر کھول کے پرواز کرنے کی لذت کیا ہے؟ سر اٹھا کے جینا اور اپنی زندگی پہ اختیار آپ کے اندر کیسے کیسے پھول کھلاتا ہے.

ہم پیرس میں ایک ریسٹورینٹ میں کھانا کھا رہے تھے ہماری ساتھ والی میز پہ دس عورتوں کا گروپ بیٹھا تھا جن کی عمریں ستر اور اسی سال کے درمیان تھیں۔ خوش رنگ کپڑے، میک اپ سے چمکتے چہرے، باتیں، قہقہے۔ یوں لگتا تھا کہ زندگی اپنی تمام بشاشت و رنگینی کے ساتھ موجود ہے۔ جب وہ اٹھ کے چلنے لگیں تو ہر دوسری خاتون چھڑی کے سہارے چل رہی تھی۔

میری صاحبزادی بولیں

“اماں آپ نے غور کیا ؟ یہ تقریباً نانی کی عمر کی عورتیں ہیں۔ کیا آپ نے پاکستان میں اس عمر کی عورت کو مصلے، تسبیح، درس اور عبادات کے علاوہ کہیں دیکھا ہے؟ انہیں دیکھئے، یہ عورتیں زندہ ہیں۔ ان کے لیے زندگی میں ابھی کئی مفہوم باقی ہیں، یہ بستر پہ لیٹ کے اللہ اللہ کرتے موت کا انتظار کرنے کی بجائے چلتے پھرتے اللہ کی بخشی ہوئی زندگی کا مزہ اٹھا رہی ہیں “۔

کیا اپنے ہاں کوئی تصور کر سکتا ہے کہ آپ کی نانی سہیلیوں کے ساتھ کافی پینے جا رہی ہوں۔ اور اگر جا ہی رہی ہوں اور زندگی سے بھرپور بھی نظر آرہی ہوں تو بڈھی گھوڑی لال لگام کا آوازہ کسنا تو کہیں نہیں گیا۔

نانی تو چھوڑیے، بہت بڑی ہو گئیں، اپنے ہاں تو شادی کے فورا بعد شوہر اور سسرال کا فرمان جاری ہوتا ہے، یہ سہیلیوں وغیرہ کے چونچلے اب بھول جاؤ، میاں اور بچوں میں دل لگاؤ۔ حتی کہ میاں کی موجودگی میں کسی کا فون سننے پہ بھی پابندی ہوتی ہے۔

ہمیں یاد ہے ہم نے جب بھی کسی دوست سے شام کے وقت باہر چل کے سنیما دیکھنے کو کہا یا کافی پینے کو تو ہر کسی کا جواب تھا “شام ! نہیں شام کو تو وہ گھر ہوتے ہیں، اور برا مانیں گے اگر میں باہر نکل گئی“

ٹی ایس ایلیٹ نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں لکھا تھا

I have measured out my life with coffee spoons

یہاں مسئلہ کچھ اور نہیں پھر وہی پدرسری معاشرے کی تقسیم کا ہے، جہاں صنف کی بنیاد پہ آپ کے مقام کا تعین کیا جاتا ہے۔ اور نظام کی بقا اس میں ہے کہ عورت کا سر نہ اٹھ سکے، اسے باور کرایا جائے کہ اس کی بقا مرد کے پیچھے چلنے میں ہے۔

کیوں کہ اگر مرد ہیں تو سات خون بھی معاف، عورت ہیں تو ہاتھی کو سوئی کے ناکے سے گزارنا ہے۔ وہ مرد جو اپنے دوستوں کے ساتھ وقت بغیر کسی سوچ یا پابندی کے گزارتا ہے، اسی مرد کی بیوی کبھی کوئی شام اپنی سہیلیوں کے ساتھ گزارے یہ برداشت نہیں ۔

“ بچوں کا کیا ہو گا”

“ابا تمہارے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہیں “

“اماں ناراض ہوں گی”

“مناسب نہیں لگتا “

“شریف عورتوں کے یہ لچھن نہیں ہوتے “

“ہمارے گھر کی عورتیں سنیما نہیں جاتیں “

“میں کیا اکیلا بیٹھا رہوں “

“میرے ساتھ جانا “

“چھوڑو نا، یہ سب کنوار پنے کے شوق”

“یہ کون تمہیں پٹیاں پڑھا رہا ہے “

سو کہانی وہی ہے کہ لامحدود اختیارات کے مالک کی مرضی نہیں کہ عورت کو کچھ لمحوں کی بھی رہائی ملے۔ وہ عورت کے جسم و جان کا مالک تو ہے ہی،اس کی لرزتی روح کو کچھ لمحے رہائی کے ملیں، یہ کیسے ممکن ہے ؟

پر اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جسے غم ہونا چاہیے اپنی حق تلفیوں پر، وہ اس پدرسری مقام کو قبول کرتی ہے، اور اس کی ترویج کے لئے مرد کے رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ اس محترمہ کی حدیقہ کیانی پہ پھبتی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

مرد عورت کے ذہن کو اس قدر مفلوج کر دیتا ہے کہ پھر عورت کی ہر بولی میں درپردہ مرد بولتا ہے ،

اک پرندہ میرے کاندھے پہ اتر آتا ہے

قفس میں کسی اور کی مرضی سے سانس لیتے اور کسی اور کی زبان بولتی اس مجبور مخلوق کو کیا علم کہ جب زمین کے ساتھ آسمان بھی اپنا ہو تو اس میں ایسی زندگی میں گزرنے والے سب عدد کم پڑ جاتے ہیں۔ سلامت رہو حدیقہ، تم نے زندگی کو برسوں میں ناپنا نہیں سیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).