عوام جشن آزادی منائیں یا اپنی جان بچائیں


\"Sarwat

ٹھیک تین روز قبل بڑا سانحہ رونما ہوا، بڑے جانی نقصان کے بعد سوگ و الم کی کیفیت دے گیا۔ مذمتوں اور قراردادوں کا سلسلہ چل پڑا ۔ کوئٹہ حملے کے متاثرین سے تعزیت و عیادت کا سلسلہ تھما نہیں کہ آج صبح پھر کوئٹہ ہی میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں پولیس اہل کاروں سمیت تیرہ افراد زخمی ہوگئے ۔ ذرائع کے مطابق حملہ آوروں کا حدف پولیس اہل کار تھے ۔

ملک کی سیاسی و عسکری قیادت دو روز سے سر جوڑکر آگے کی حکمت عملی تیار کرنے بیٹھی ہے ۔ سانحہ کوئٹہ پر وزیر اعظم کا ردعمل کچھ یوں تھا کہ جاں بحق ستر سے زائد افراد کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ۔ شہدا ء کی قربانیاں رنگ لائیں گی ۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف قوت سے آگے بڑھیں گے ۔ یہ کیسی قوت ہے کہ تین روز کے اندر دہشت گردی کا ایک اور واقعہ رونما ہوگیا ؟ عوام کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہےکہ دشمن کو پاک چین اقتصادی راه داری کا منصوبہ ہضم نهیں ہورہا ۔ درجنوں وکلاء کے وارثوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ بلوچستان بدامنی میں پڑوسی ملک کی تنظیم ”را“ کا ہاتھ تھا ، اس بیان سے ان گھرانوں نے زور بازو جو دن رات کمائی کرکے اپنے گھر چلارہے تھے، واپس نہیں آسکتے ۔ خدارا ہمارے سیاست دان اب تو الزام تراشی اور جان چھڑانے والے بیانات کا سلسلہ ختم کریں ۔

نیشل ایکشن پلان پر نئے وعدے اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے دعوے بظاہر کھوکھلے نظر آرہے ہیں ۔جن دہشت گردوں کو مٹھی بھر کہا جاتا ہے ، دو سال سے جاری آپریشن میں ان کا خاتمہ کیوں نہیں کیا گیا ؟ دہشت گردی کی جنگ میں ساٹھ ہزار جانیں جاچکی ہیں۔ اتنی جانیں تو بھارت سے تمام جنگوں میں بھی ضائع نہیں ہوئی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ کومبنگ اور ٹارگیٹڈ آپریشن تیز کرنے کی ہدایت، نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر سختی سے عمل درآمد کی یقین دہانی کے لیے کیا کوئٹہ سانحے یا اس سے بھی بڑے جانی نقصان کا انتطار تھا ؟ بیس نکاتی نیشل ایکشن پلان پر اب صحیح معنوں میں عمل ہوگا تو پہلے کیا ہوتا رہا ؟ کیا پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے خون سےکھیلی گئی ہولی ، کوئٹہ ہی میں ہزارہ کمیونٹی پر حملہ،کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ، سانحہ کارساز میں دو سو افراد کی شہادت ، گلشن اقبال پارک لاہور میں درجنوں بچوں اور خواتین کی شہادت کے واقعات کافی نہیں تھے ؟ دشمن کی ٹوٹی کمر ہر بار پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہے ۔ مٹھی بھر دشمن کی کارروائیوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے چند افراد نہیں پورا لشکر معصوم جانوں کو روندتا ہوا کر نکل کر بھاگا ہو ۔

تین سال تین ماہ قبل حلف اٹھانے والے وزیراعظم نواز شریف کے تاریخی الفاظ بھی سن لیجئے جو وہ کم و بیش ہر تقریر میں دہراتے ہیں کہ ملک اس وقت نازک دور سے گذر رہا ہے ۔ قوم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے ۔ ملک حالت جنگ میں ہے ۔ عوام صبر و ہمت کا مظاہرہ کرے ۔ جناب میاں صاحب ! قوم متحد ہے اور یکجا ہوکر ہی اپنے پیاروں کے جنازوں کو کاندھا دے رہی ہے ، جنھیں بناء کسی قصور ایک آزاد جمہوری ریاست میں دن دہاڑے مار دیا جاتا ہے ۔ متحد ہونے کی ضرورت اس وقت ملک کی سیاسی جماعتوں کو ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ حکومت تنہا دشمن سے نہیں لڑسکتی ۔ اپوزیشن کو اس وقت حکومت سے اتحاد کی ضرورت ہے ، جو بات بے بات ناراض ہو کر ایوان چھوڑ جاتی ہے ۔ عوام کی جان انفرادی طور پر تو خطرے میں برسوں سے ہے لیکن حکمران یہ بھی سمجھ لیں کہ قومی سلامتی کو بھی امن دشمنوں سے شدید خطرہ ہے ۔ ملک کی سالمیت بھی محفوظ نہیں ۔ وقت کا تقاضہ ہے سیاسی قیادت سمیت تمام سیاسی جماعتیں ملک کی سالمیت کی خاطر ایک پیج پر آجائیں ۔ ملک اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔

وزیر اعظم صاحب، اب مزید غلطیوں اور صبر کی گنجائش نہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کے نتائج سے عوام کو با خبر کرنا آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اس ملک کے باسیوں کو جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا آپ کا فرض ہے ۔ میڈیا پر اجلاسوں کی جھلکیاں ، احکامات، کمیٹیاں، نت نئی طرز کی پالیسیاں بنا کر بھولی عوام کو بہلانا کم کریں ،ان احکامات پر عمل درآمد بھی کرائیں ۔ ہمیں اپنے مذمتی بیانات اور روایتی پیغامات سے زچ نہ کریں ۔ ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے ۔ دشمن اس بندر بانٹ سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ پاک وطن میں ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہے ۔ سانحہ کوئٹہ میں ستر خاندان بے سہارا ہوگئے ، ملک کے ستر روشن چراغ یتیم ہوگئے ۔ جوان بیوائیں زندہ لاش بن گئیں ۔ ملک کے سربراہان سے یہ لوگ جواب مانگیں گے کہ آخر اور کتنے انسانوں کے لہو سے اس وطن کی مٹی کو سیراب کرنا ہے ؟ یوم آزادی پر کون سا بچہ \’ میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے\’ کا گیت لبوں پر سجائے گا ؟ اس وطن کے نام لیوا سے تو جینے کا حق اور زندگی کی سانسیں چھینی جا رہی ہیں ۔

قوم اس وقت 69 ویں جشن آزادی کو شایان شان طریقے سے منانے کے لیے بھرپور تیاریاں کر رہی ہے ۔ بازاروں اور سڑکوں پر عوام کا رش ہے۔ ملک میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آئی ہوئی ہے ۔ خدا یہ ہریالی سلامت رکھے لیکن آج ہر پاکستانی جب اپنے اردگرد ان واقعات کے تسلسل کو دیکھتا ہے تو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا اس کی جان محفوظ ہاتھوں میں ہے ؟ اس آزاد ریاست میں آئین، عدلیہ یا عوام کوئی بھی تو محفوظ نہیں ۔ جن ماؤں کی دعاؤں کے صدقے یہ وطن ملا آج ان ہی بوڑھی ماؤں کی نظریں دروازے سے ہٹ کر اپنے پیارے شہیدوں کی تصاویر پر ٹک گئیں ۔ آخر اس پاک وطن کی پیاسی دھرتی کو مزید کتنے شہداء کے خون سے سینچنا ہے؟

آزادی کے بعد بھی ملک کی تاریخ اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نواز شریف صاحب آپ تو بار بار یہ کہتے ہیں تھے کہ ملک صحیح سمت پر گامزن ہے ۔ ترقی کی جانب سفر کر رہا ہے ۔ یہ سمت زندہ لوگوں کو موت کی جانب بہت تیزی سے دھکیل رہی ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ ملک میں امن قائم ہوچکا، آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو قوم بار بار سانحوں کے بعد لاشوں پر نوحہ کناں کیوں ہے ؟ ملک میں امن حقیقی معنوں میں کب قائم ہوگا؟ عوام منتظر ہیں کہ دشمنوں کی کمر صحیح معنوں میں ٹوٹ جائے اور مزید نہتے عوام اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کے بجائے یوم آزادی کے جشن میں زندہ سلامت ، بے خوف و خطر ملی جوش و جذبے سے حصہ لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments