آزادی اور فکری و تخلیقی آزادیوں کا سوال


\"Amjad-Nazeer\"آزادی کے اس مہینے میں ہماری زیادہ تر توجہ اپنے جغرافیائی خطے کے حصول اور اس کے تاریخی اور سیاسی پس منظر پرمرکوز رہتی ہے اور اِس آزادی یا کسی بھی آزادی سے مربوط و منسلک آزادی فکر و اظہار، محدود قانونی اور حلقہِ حقوقِ انسانی کے امور شاید ہی زیرِبحث آتے ہیں ۔ پہلے تو ہمیں اس بات کا باور کرنا ضروری ہے کہ رسل و رسائل کے اس دور میں نقشہ جاتی آزادی کے ہمراہ سائنسی، فنی اورفکری آزادی لازم و ملزوم ہیں ۔ ورنہ آزادی فقط جغرافیائی تسلط سے ایک جست آگے فکری تسلط تک ہی پہنچ پاتی ہے ـ اور افسوسناک بات یہی ہے کہ ذہنی غلامی، ثقافتی حبس اور فکری گٹھن اگر اپنی انتہائی شکلوں میں کہیں موجود ہے تو وہ جگہ وطن عزیز پاکستان ہے ۔ جو اب حبسستان ہوتا جا رھا ہے ۔ جبکہ کنزیّومرزم کی آزادیوں میں یہ ایک بازارِ بہشت ہے جہاں شب و روزنئی سے نئی مصنوعاتِ عیش و تفریح کا گویا ایک ہنگامہ برپا ہے اورجدید اشیاء کی نہ ایک نہ ختم ہونے والی طلب ۔ یہاں بھانت بھانت کی اشیائے صرف و تصرف خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا ذریعہء افتخارو ثروت ہے ۔ فقظ علامتی طور پر انہیں \”حلال\” اور \” اعتقاد\” میں داخل کرنا ایک نارم ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ آپ پر اُس کا کس قدر فضل وکرم ہے ۔

اور اگر کوئی چیز حرام ہے تو وہ ہے آزادیِ فکر اور آزادی اظہار و بیان ۔ اگر کسی شے کی حیات اجیرن ہے تو وہ ہے نئی فکر، نئی سوچ ، نیا نظریہ یا کوئی تخلیقی تحریک ۔ نئی سوچ اور نیا نظریہ تو دوُر کی بات ہے، حیات و کاینات کی کسی نئی دریافت کوبھی ہمارے قادریوں ، شیرا نیوں، مُفتیوں اور قاضیوں سے آشیروادِ قیاس و اجماع لینا ضروری ٹھہرتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، ہم نے ِاس اسیری کے لیے آزادی کے بیسیوں برس کھپائے ہیں ۔ اور بڑی باریک بینی سے ہر نئے اندازِفکر، ہر نئی معاشی اور سماجی ترکیب اور ہر نئے فلسفے پرمذہبی اورمسلکی سپاہ مقرر کی ہے ۔ فتوے لیے دیے ہیں، قا نون سازیاں کی ہیں، ماحول تشکیل دیا ہے اور اب تحریکِ طالبان کے زیر اثر روشن خیالی پر خوف و ہراس کے نئے لشکر مامور ہو گئے ہیں۔

آزادی کے اوّلین سالوں میں ہی ہم نے اپنی ریاست پر سبز اچکن اور شیروانی چڑھا ڈالی جس میں سفیدی برائے نام باقی رہ گئی ۔ پھر صوفیانہ طرزِ فکر صلح کُل رویّوں کو ٹکٹکی پر چڑھایا تا کہ اپنے تنگ نظر عقائد ، محدود شرح اور مخصوص معنویِّت کے علاوہ تمام ممکنات کو بدعت اور اختراِعِ قرار دیا جا سکے۔ اور پھر ریاست کوملائیت کے تابِع فرمان کرتے ہوئے اسے یہ فریضہ سونپا کہ وہ جدید انفراسٹرکچر اورترقی پسندانہ قانون سازی چھوڑ کر لوگوں کے قیام و سجود پر ٹّۤیگ لگائے اور انہیں اچھا برا یا مسلمان ہونے نہ ہونے کی سند عطا فرمائے اور پھر یوں ہوا کہ رنگ برنگی پگڑیوں، دستاروں، جُبوں، ٹوپیّوں،اور ٹخنے والوں کے لیے ایک سیلابی دروازہ ، ایک یلغارانہ محاز، ایک فاتحانہ دربارسزا و جزاء کھل گیا جس نے ہر نظریے، ہر فکر، اور ہر تحریک کو یا تو اپنے رنگ میں رنگ ڈالا یا پھر اسے کُفرو شِرک ، یہود و ہنود کی سازش ، مغربی ریشہ دوانی اور فریبِ ابلیس قرار دے دیا ۔ کیونکہ اپنی مذہبی اُجارہ داری کے لیے دوسرے نقطہ ہائے نظر، آزادانہ استدلال اورغیر جانبدارانہ تحقیق کا گلا گھونٹنا ضروری تھا ۔

فرانس کا ایک مشہور نظریہ دان \”مِشل فُوکو\” کسی معاشرے کی ایسی فکری صورتِ حال کو، جیسی کہ پاکستان میں ہے، \”ایک خا ص نقطہِ نظر کا غلِبہ\” یا \”ڈسکورس ڈامینیشن\” قرار دیتا ہے ۔ جب کسی بیانیے ، کسی نظاِمِ فکر اور کسی دبستانِ خیال کا کسی قوم کی معاشرت، ثقافت، تخلیق، تحریر، تقریر، معیارِعمل، آرٹ، ادب، فنونِ لطیفہ، سائنس حتٰی کہ فلسفہ، قانون اور اور نظامِ حکمرانی پر راج ہوجائے تو وہ قوم نظریاتی غلامی کا شکار ہو جاتی ہے اور اُس قوم کے لیے ںئے نطاِمِ فکر اور نئی سیاسی، سماجی، علمی اور فنی تحریکوں کا قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یہ بھی ایک طرح کا سامراجی تسلط ہوتا ہے جس کے لیے نئی تحریکِ آزادی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ مگر عمومی طور پر نظریہ بہت سے لوگوں کو ہمارے ارد گرد بکھرے زندگی اور کائینات بشمول سماجی بے انصافیوں کے بارے ان گنت سوالوں کا قطعی اورتسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے۔ جس میں بڑی آسودگی اور اطمنان محسوس ہوتا ہے ۔ ورنہ سچ بات یہ ہے کہ ہر سوال کے ساتھ فکر کی ایک لکیر بندھی ہے اور زیادہ تر لوگ اسی سے گریز پسند کرتے ہیں۔ اس لیے غالب ڈسکورس مقبول ترین ڈسکورس بھی ہوتا ہے ۔

اس پس منظر میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ ہم نے اپنی ریاست کو \”اسلامی جمہوریہِ پاکستان\” کا نام دینا پسند کیا جبکہ سیاسیات کی اصطلاح میں \”ریاست\” ، مذہب اور عقیدے سے ماوراء محض ایک معاشی اور سیاسی ادارہ ہوتا ہے اور عقیدہ یا گوناگوں عقائد صرف اور صرف لوگوں کے ہوتے ہیں ، اداروں کے نہیں ۔ جمہوریت بھی صرف اور صرف \”عوامی جمہوریت\” ہوتی ہے جس کا اپنا کوئی دین دھرم نہں ہوتا کیونکہ آئیڈیلی وہ محض عوامی ضروریات و سہولیات کی ترجیحات ماپنے کا ایک ذریعہ ہے اور بس ۔ وطنِ عزیز میں جب درج بالا ڈسکورس کی حکمرانی قائم ہو گئی تو ہر مختلف نظریے اور فکری تحریک پر تنقید و تمسخر لازمی نتیجہ تھا۔

نطریہء ارتقاء کے حیاتیاتی و نباتیاتی تسلسل اور شواہد و آثار کو سمجھے بغیر یہ طنز عام رہا کہ \”ڈاروّن انسان کو بندر کی اولاد سمجھتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہان میں کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے اور انسان درندوں کی طرح آزاد ہے اور یہ بھلا کیسے ممکن ہےِ؟\”

سیکولرزم پر لادینیت کا الزام لگایا جاتا ہے حالانکہ یہ نظام فکرلوگوں کی شخصی، ثقافتی اور مذہبی آزادی پر یقین رکھتا ہے اوراسکا مطمِعِ نظرسماجی انصاف اور اچھی حکمرانی کو فروغ دینا ہے ۔ سوشلزم کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ \”یہ لادین ریاست، معاشرت، ثقافت، اور طرزِزندگی کو فروغ دیتا ہے\” ۔ حالانکہ یہ فقط ایک طبقاتی معاشی مساوات اور سرمائے کی تقسیِمِ کار کاایک نظام ہے ۔ انفرادی سطح پر سرمایہ داریت میں پورے کے پورے داخل ہونے کے باوجود (جس کی مثال اوپر درج ہے) برسرآوردہ اور مذہبی طبقہ اِسے اسلام دشمن مادر ِپدر آزاد خیال معاشرت کی بنیاد قرار دیتا رھا ہے۔ جبکہ اس کی بنیاد میں کارفرما نظریہ انسان کی خود مرکزیت اور انفرادی آزادی طبع پر یقین رکھتا ہے ۔ اس لیئے لبرل یا سرمایہ دارانہ سماجی اوراشتراکی جمہوریت دو متفرق معاشی اور سماجی نظامِ حکمرانی ہیں جن کی اپنی اپنی کامیابیاں اور ناکامیاں ہیں جسے نعرہ بازیوں سے ہٹ کر ہماری سیاسی جماعتوں، علماء اور حکمرانون کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی درست ترین جمہوری سمت متعیّن کر سکیں ۔ اور لوگوں کو بہتر معیارِزندگی دے سکیں ـ کیونکہ عقیدہ لوگوں کا ذاتی مسئلہ ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔

آج کل ہمارا \”غالب ڈسکورس\” انسانی حقوق کے خلاف صف آراء ہے ۔ اور اس کے پرچارکوں کا خیال ہے ہمارے مذہب سے بہتر انسانی حقوق کا کوئی اعلامیہ، کوئی چارٹر، کوئی کنونشن ہو ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ جو چیز ہمارے پاس نہیں ہے وہ یا توغلط ہے یا پھر ہمارے خلاف سازش ہے ۔ گویا جس چیز کو وہ نہیں سمجھتے یا جس نظریے کے فروغ سے ان کا ا اثرو رسوخ کم ہو نے کا خدشہ ہو اسے رد کر دینے مں ہی انھیں حکمت و عافیت محسوس ہوتی ہے ۔

حیرت کی بات یہ ہے ک \”غالب ڈسکورس\” کے اکثر پۤیروکارعورتوں کی ثانوی حیثیت، اُن کی محدود عقل، اقلیتوں کے ذمی ہونے پر سیاسی، معاشی اورسماجی توجیہات پیش کرتے ہیں۔ قتال والے جہاد کی تلقین کرتے ہیں، دوسری اقوام اور تہذیبوں کو کمتراور حقیر سمجھتے ہیں، اقواِمِ عالم پر اپنے آخری غلبے کا پرچار کرتے ہیں ، ریاست کو مذہبی پیشوا مقرر کرتے ہیں ۔ سول اور بین الاقوامی قوانین کوغیر مستحسن، متعصب، متصادم اور ناقابلِ عمل شمار کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو تمام مذہبی اقوام سے اعلیٰ وارفع سمجھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ انسانی حقوق ایک منحرف، خود متصادم، ناقابلِ عمل اور مغربی دستاویز ہے ۔ اس تمام معاشرتی رویے سے بالاتر ہماری پارلیمان میں حزبِ اقتدار اور احزبِبِ اختلاف جو کہ جمہور اور آزادیِ فکر و اظہار کے نمائندے ہوتے ہیں، وہ بھی ایک دوسرے کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔

سائینسی حقائق کو چھوڑ کرکیونکہ وہ اپنا ثبوت خود ہوتے ہیں، اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی تعامُل نہیں ہے کہ تصوف، وجودیت، سیکُولرزم، نظریِہِ ارتقاء، اشتراکی و سرما یہ دارانہ جمہوریت حتٰی کہ انسانی حقوق اور بہت سے اور روشن خیال ترقی پسندانہ نظریوں کے اپنے اپنے نظریاتی اور سب سے بڑھ کرسیاسی اور بین الاقوامی مسائل ہیں جن پر بحث کی جا سکتی ہے ۔ انسانی حقوق کی بھی اپنی سیاست اور طاقتور ملکوں کے اپنے دوہرے معیار اور مفادات ہیں مگر اِن کو سرے سے رد کر دینا اور اِن نظریات پر لکھنے، پڑھنے، سوچنے اور بحث کرنے والوں پر طرح طرح کے الزامات لگانا اور بعض صورتوں میں دھمکیاں دینا نہ صرف ہمیں سیاسی اور سماجی میدانوں میں پیچھے دھکیل رھا ہے بلکہ ہمارے ذہنوں کو محدود کر رہا ہے ۔

غالب ڈسکورس کو بدلنا ایک مُشکل، وقت طلب، اور محنت کا متقاضی کام ہے ۔ جبر اور عدم آزادی کی اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے ہمارے روشن خیال حلقوں کو بہت سی جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آزادیِ فکر و اِظہار کے بغیر یہ خالی خولی جغرافیائی آزادی ہمیشہ بے معنی اور بے مُراد رھے گی ۔ ہمیں آزادی کے اس روایتی تصور کو بدلنا ہے تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی یا فتہ اور مکمل طور پر آزاد ملکوں کی فہرست میں با وقار طریقے سے کھڑا ہو سکے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments