نظام کی درستی کا مسئلہ


بنیادی طور پر ایک بڑا بحران نظام کی درستگی، شفافیت اور انصاف پر مبنی نظام کا ہے۔ ایک ایسا نظام جو لوگوں جو عام آدمی میں اپنی ساکھ بھی قائم کرسکے اور لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا کرسکے۔ ہماری سیاسی، سماجی جدوجہد عملی طور پر نظا م کی درستگی کے نعروں کے درمیان ہوتی ہے اور ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت نظام کی تبدیلی کو بنیاد بنا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کرتی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری اپنی سیاست کا المیہ نظام کی تبدیلی کے مقابلے میں افراد اور فرد یا خاندان کی ترقی تک مرکوز ہوتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنی آزادی سے لے کر اب تک نظام کی تبدیلی کے نعروں کے درمیان ہی کھڑے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے لیے ایک بڑے ”سیاسی ہتھیار“ سے کم نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کے نعروں میں نظام تو نہیں بدلتا، البتہ ہماری سیاست عملا ایک ایسے انتشار کے درمیان کھڑی ہے جہاں کوئی محفوظ راستہ ممکن نظر نہیں آتا۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگانا آسان ہوتا ہے اور اس میں جب خوشنما نعرے اور جذباتیت سمیت پرجوشیت پر پر مبنی سیاست کو بالادست کردیا جائے تو منزل اور دور ہوجاتی ہے۔ کیونکہ نظام کی تبدیلی کا عمل ایک سنجیدہ نوعیت کی بحث ہے اور اس پر مختلف حوالوں یا پہلووں سے غوروفکر، تدبر اور تجزیہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب نظام کی تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو اہم سوا ل یہ ہوتا ہے کہ ہم پہلے سے موجود نظام کے مقابلے میں کیسا متبادل نظام چاہتے ہیں۔ یہ بحث کون کرے گا اور اس کا فیصلہ کون اور کہاں ہوگا کہ کیسا نظام ہونا چاہیے اور کون اس کو تبدیل کرنے کا حق بھی رکھتا ہے اور ذمہ دار بھی ہے۔ نظام کی تبدیلی کا عمل ایک متبادل نظام کے مرہون منت ہوتا ہے اور اس میں مختلف نوعیت کے ماہرین کی مشاورت، حمایت اور مدد درکار ہوتی ہے۔

جب ہم جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور منصفانہ و شفافیت پر مبنی نظام کی بات کرتے ہیں تو بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ اصل لڑائی یا جنگ ان ہی نکات سے شروع ہوتی ہے کہ ہم نے کیسے نظام کو بدلنا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے نظام کی تبدیلی کے تناظر میں جو اہل دانش کی سطح پر کام کرنا تھا وہ ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ ناکامی کسی ایک فریق یا جماعت کی نہیں بلکہ اصولی طو رپر ہم سب فریق ہی اس حالیہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔

بنیادی خرابی کا آغاز اس نکتہ سے ہوتا ہے کہ جب ہم نظام کی تبدیلی کے عمل میں نظام سے زیادہ اپنی ذاتی مفاد اور بالادستی کو فوقیت دیتے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی بھی نظام اداروں کے مقابلے میں افراد یا فرد کو مضبوط کرے گا تو خرابی کا آغاز اسی نکتہ سے ہوجاتا ہے، اس سوچ اور فکر کو تبدیل کرنا تبدیلی کے عناصر کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

نظام کی تبدیلی کے تناظر میں ایک بڑا چیلنج روایتی، سٹیٹس کو قوتوں اور حقیقی تبدیلی کے فریقین کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ جنگ فطری ہوتی ہے اور جو بھی گروپ زیادہ طاقت میں ہوتا ہے وہی اپنی بالادستی کو قائم بھی رکھتا ہے۔ کیونکہ طاقت ور فریقین کبھی بھی ایسی تبدیلی کے حق میں نہیں ہوں گے جو اجتماعی ترقی کا روپ دھارے۔ ان کی سوچ اور فکر محدود ہوتی ہے اور یہ طاقت ور لوگ اپنے حمایت یافتہ طاقت ور عناصر کی ترقی تک خود کو محدود کرتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اگر ہم اس ملک میں موجود طاقت ور سیاسی، انتظامی، قانونی اور عسکری طبقات کو دیکھیں اور ان کی طرف سے ہونے والی فیصلہ سازی کے عمل کو دیکھیں تو ہمیں ان کی سوچ، فکر اور فیصلہ سازی میں ایک طبقاتی تقسیم اور طبقات کی بنیاد پر فیصلے غالب نظر آتے ہیں۔ یہ سوچ و فکر معاشرے میں مختلف فریقین کے درمیان خلیج پیدا کرتی ہے اور یہ تقسیم امیر، غریب یا کمزور اور طاقت ور کے درمیان ہوتی ہے۔ اس تقسیم کو ختم کرنا اہم چیلنج ہوتا ہے اور یہ کام فکری، علمی اور سیاسی بنیاد پر ہونے والی سیاسی اور سماجی جدوجہد سے جڑا ہوتا ہے اور اسی کام کی بنیاد پر طاقت ور لوگوں کو کمزور طبقات کی حمایت پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس سے عام آدمی کی مراد کیا ہوتی ہے۔ کسی بھی نظام کی بڑی ساکھ اس کا عام طبقہ ہی ہوتا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر نظام کو کامیاب یا ناکام بنایا جاتا ہے۔ عام لوگوں کا مقدمہ بہت زیادہ سادہ ہوتا ہے اور وہ اس مسئلہ پر کسی بڑے سیاسی فلسفہ یا فکری مغالطوں کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا بڑا مقدمہ بنیادی حقوق اور ضرورتیں ہوتی ہیں۔ یہ وہ حقوق ہیں جو ان کو آئین پاکستان کے پہلے باپ بنیادی حقوق میں آرٹیکل 8 سے 28 کے درمیان حاصل ہیں۔

ان میں صحت، تعلیم، روزگار، نقل وحمل، تحفظ، ماحول، انصاف، آزادی اظہار، تنظیم سازی کا حق، ووٹ کا حق جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان جو عمرانی یا سماجی ماہدہ ہے وہ بھی ان ہی نکات کے درمیان موجود ہے۔ اگر ان نکات پر منصفانہ بنیادوں پر عمل نہ ہو تو پھر ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے اور کیسے ایک دوسرے پر اعتماد کیا جائے گا۔

المیہ یہ ہے کہ جن طاقت ور فریقین اور بالخصوص سیاسی قیادت نے نظام کو بدلنا تھا وہی نظام کو بدلنے کے اصل دشمن بھی بن گئے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا عمل اصلاحات کے عمل سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن اول تو ہم اصلاحات کے قائل ہی نہیں ہیں یا اگر ہمیں مجبوری کے تحت اصلاحات یا قانون سازی کرنی پڑے تو یہ ہماری فکر کا عارضی عمل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرز کی اصلاحات یا قانون سازی کے عمل میں عملدرآمد کا نظام ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لاتعداد قانون سازیاں، پالیسیاں اور اداروں کے باوجود ہمارا نظام لوگوں کی بنیادی نوعیت کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں بہت پیچھے ہے۔ یہ جو ہم محض جمہوریت اور عام آدمی کی حمایت میں نعرے یا جذباتیت کو پیدا کرکے نظام کی تبدیلی کی دہائی کو دیتے ہیں یہ ماسوائے خوش فہمی کے کچھ بھی نہیں ہے۔

نظام کی تبدیلی کے عمل کا اہم نکتہ قوم کے افراد اور بالخصوص کمزور طبقات کو ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی ترجیحات کا حصہ بنانے سے جڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ جب لوگوں کو سامنے رکھ کر نظام کی اصلاح کی جائے گی تو لوگ اس نظام کی تبدیلی کی بحث اور عمل میں خود کو شریک کا رکے طو رپر سمجھتے ہیں اور ان میں نظا م کے تناظر میں ملکیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ جو ہم روزانہ کی بنیادوں پر نظام سے جڑے مختلف مسائل پر ماتم کرتے ہیں اور جذباتیت پیدا کرکے ماحول کو اور زیاد ہ مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں، مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

کیونکہ ہمیں مسائل کی گہرائی میں جاکر مسائل کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا ہوگا۔ ہمارا مسئلہ ایک ایسا نظام ہے جو عملی طور پر قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام درست انداز میں نہیں کرپارہا۔ یہ نظام اپنے اندر بہت بڑی حد تک اصلاحات اور تبدیلی چاہتا ہے۔ یہ تبدیلی کا عمل ناگزیر ہے کیونکہ موجودہ نظام اپنی اہمیت کھوبیٹھا ہے اور مزیدلوگوں کے لیے کمزور بن رہا ہے۔

ماضی کی سیاست میں ایک نعرہ ہوتا تھا کہ چہرے نہیں نظام کو بدلو۔ اصولی طور پر ہماری جنگ اسی نعرے کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہم مصنوعی انداز سے چہرے بدل کر یا ان کو تبدیل کرکے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ نظام بدل رہا ہے۔ لیکن عملی طور پر نظام بدلتا نہیں ہے کیونکہ ہم اقتدار کی سیاست میں ایسی اصلاحات کے قائل نہیں جو نظام کو مضبوط بناتا ہو۔ نظام کی تبدیلی میں سب سے زیادہ اہمیت سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے اور سیاسی جماعتیں یہاں کہاں ہیں اور کیونکر مضبوط نہیں اور کیوں خاندانی سیاست کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں اس کا تجزیہ کیے بغیر سیاسی جماعتوں کی فعالیت ممکن نہیں ہوگی۔

کیونکہ نظام کی تبدیلی ایک بڑے سیاسی، سماجی دباؤ کے تحت ہی ممکن ہوتی ہے۔ ہمیں خاص طور پر اپنی نئی نسل کو یہ باور کروانا ہوگا اور ان میں یہ سیاسی اور سماجی شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ اگر نظام نے حقیقی معنوں میں تبدیل ہونا ہے تو ان کی مدد، حمایت اور جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ اگریہ نظام تبدیل ہوگا تو اس کا براہ راست فائدہ ترقی کے تناظر میں نئی نسل کو ہی ہوگا جن کے ہاتھ میں قوم کامستقبل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).