نواز شریف کی نا اہلی سے تبدیلی سرکار کی سابقہ نا اہل کابینہ تک


تبدیلی سرکار کے سابقہ وزراء کی نا اہلی، بدنظمی، مس پلاننگ اور وژن اور صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے آٹھ ماہ میں ہی یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ تبدیلی کو چاہنے اور لانے والوں کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ تبدیلی سرکار کے سینئر وزراء بھی نئے وزراء سے نا امید نظر آتے ہیں، اس کی صرف اور صرف اک وجہ ہے اور وہ تبدیلی سرکار کے وہ بلند و بانگ دعوے تھے جن کے خواب انہوں نے سلیکٹرز اور عوام کو دکھائے تھے کہ اقتدار میں آتے ہی وہ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے لیکن اقتدار ملتے ہی حقیقت اس کے برعکس نکلی اور کسی بھی شعبہ کی پلاننگ، وژن، منصوبہ بندی اور اہداف نہ ہونے کے سبب عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے ہیں اور نکلنے کی امید دور دور تک نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے عوام اب اس ”انگلی“ اور اس کی سلیکشن کیطرف سوال اٹھا رہے ہیں جس ”انگلی“ کے اٹھنے کی امید تبدیلی سرکار نے دھرنے میں لگائی تھی۔ اب سوال یہ نہیں کہ نواز شریف نا اہل نہ ہوتے تو کیا پھر بھی الیکشن ہوتا اور پی ٹی آئی الیکشن جیت جاتی؟ بلکہ سوال یہ ہے کے نواز شریف کو نا اہل کر کے اب تک ہم نے کیا مثبت پایا؟

جو منفی پایا وہ سب کے سامنے ہے، انتخابات مشکوک ہوئے، اقتصادیات ڈانواڈول ہوئی اور عوام عجیب قسم کی بے سکونی اور بے چینی کا شکار ہیں، جمہوری اقدار کمزور سے کمزور تر ہو رہے ہیں، نواز شریف کو نا اہل کرنے پہ واویلا مچایا گیا کہ بڑے چور کو پکڑیں گے تو چھوٹے بھی ہاتھ آئیں گے، گاڑیاں بیچ دینے یا بھینسیں بیچ دینے سے معشیت بہتر ہونی تھی نہ ہوئی الٹا اشتہاری بل 48 لاکھ کے آ گئے، اور اب ماہانہ لاکھوں کا دودھ علیحدہ پیا جا رہا ہے اس بات سے آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ تبدیلی سرکار کے قول اور فعل میں کافی باتوں میں تضاد ہے۔ مثال کے طور پر نواز دور حکومت میں بجلی مہنگی ہونے پر بل پھاڑنا اور خود اقتدار میں آ کر بجلی بے انتہا مہنگی کرکے عوام سے امید رکھنا کہ وہ بل جمع کروائیں گے،

اپوزیشن دور میں پروٹوکول نہ لینے کے دعوے اور حکومت میں آنے کے بعد سب سے زیادہ پروٹوکول اور سرکاری گاڑیوں، ہیلی کاپٹرز اور طیاروں کا بے دریغ استعمال، اپوزیشن دور میں پٹرول حکومت کو 45 روپے لیٹر فروخت کا کہنا اور خود 105 کرنا، ڈالر 105 کا ہونے پر تنفید اور اپنے دور میں 143 کا ڈالر، چوروں اور کرپٹ ترین افراد کو پکڑنے کی باتیں کرنا اور خود جہانگیر ترین، علیم خان، فواد چوہدری، اسد عمر، شاہ محمود قرشی، بابر اعوان، زلفی بخاری جیسے  لوگوں کو اپنی بغل میں کھڑا کرنا، حکومتی بجٹ پر تنفید اور غریب کی حمایت اور اپنے دور میں منی بجٹ کے ذریعے غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننا، دعوی کیا گیا کہ ہمارے آنے سے معشیت بہتر ہو گی، ڈالروں کی بھر مار ہوگی، لیکن ہوا کیا، لینے کے دینے پڑ گے، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے اب کیا کیا لکھو۔

اصل موضوع کیطرف واپس آتا ہوں، میرے مطابق نواز شریف کی نا اہلی کی وجوہات زمینی حقائق سے زیادہ ذاتی اور نفسیاتی تھیں، چند صحافیوں کی جھوٹی انا، خلائی مخلوق کے بھائی ”وقار“ کا تکبر، بہن ”عظمی“ کا غصہ اور ذاتی عناد، چند سیاست دانوں کا مفاد نے مل کر ملک و قوم کو اپنی جھوٹی انا کی تسکین پہ قربان کیا۔ بے شک طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور عوام ہی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن ہماری تاریخ میں ہمیشہ سے کچھ ایسے کردار رہے ہیں جنہوں نے عوام کو عزت و تکریم بخشنے کی بجائے ملک اور قوم کو اپنی ذات کے لیے قربان کیا

دعا ہے اللہ تعالی ان سب کرداروں کو زلت و رسوائی کا نشان بنائے آمین

تنقید اور طنز و مزاح اپنی جگہ مگر اس وقت تبدیلی سرکار کو ملک چلانے کے لئے بہترین ٹیم سے زیادہ بہترین پالیسیز کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بھیڑوں کی اس فوج سے بھی ڈرو جس کا لیڈر شیر ہو، جن مشیروں کے کہنے میں آ کر کپتان نے 50 لاکھ گھروں اور 1 کروڑ نوکریوں کے وعدے کر ڈالے ایسے مشیروں سے تھوڑا پرہیز کیا جائے اور حقیقت مندانہ فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ قوم کو واضح بتایا جائے کہ اتنا عرصہ ہم پر مشکل وقت رہے گا مگر اس کے بعد فلاں فلاں سیکٹرز میں ترقی اور دور رس نتائج حاصل ہوں گے جس کے بعد عوام کو ریلیف ملے گا۔

عوام کو سہانے اور سبز خوابوں کے بجائے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل اور ریلیف چاہیے اس لیے اس ریلیف کے لئے بہتر پلاننگ کرنی چاہیے اس میں سے اک فنانس منسٹری چلانا بھی ہے جو میرے مطابق ایک شخص کا کام نہیں جیسا کہ اسد عمر والے معاملہ میں ون مین شو نظر آ رہا تھا اور اس کا نتیجہ بھی اچھا نہیں نکلا، اس کے لئے حکومتی سطح پر اکنامک فورم تشکیل دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ اچھی آراء سے مستفید ہوا جاسکے۔ خود کو تھکانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ افراد کو کام پر لگایا جائے جس کے یقیناً مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ تبدیلی سرکار شروع میں اوور کانفیڈنس کا شکار تھی جس کو تمام معاملات خود انجام دینے کا شوق تھا مگر ان 8 سے زائد ماہ میں بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اب انھیں پی ٹی آئی کی کابینہ سے ہٹ کر پاکستان کے لئے فیصلے لینے ہیں جس کے لئے منجھے ہوئے افراد اور پروفیشنل مائنڈز کی ضرورت ناگزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).