بچوں کو جنسی زیادتی سے کیسے بچائیں؟


تو چلیے پھر ایسا کرتے ہیں کہ زیورات، نقدی، کاغذات یا کوئی بھی قیمتی سامان گھر کے باہر رکھ دیتے ہیں اور اسے وہیں پڑا رہنے دیتے ہیں۔ آئیے کچھ گھنٹوں کے لیے بے فکر ہو جائیں۔ کچھ وقت کے بعد ہم آرام سے جائیں گے اور اپنا سامان اٹھا کر واپس لے آئیں گے۔ اس میں فکر کی کوئی بات ہی نہیں بھلا کوئی نقصان تو نہیں پہنچا دے گا ناں۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے، کوئی بھی ایسا کیوں نہیں کرتا؟ کیا یہ تجویز نہایت غیر معقول ہے؟

ہاں کوئی ایسا کیوں کرے گا، یہ تو بڑی کم عقلی کی بات ہے۔ اچھا تو پھر یوں کرتے ہیں کہ اپنے قیمتی سامان کو سنبھال کر رکھنے کے بجائے اپنے کسی دوست، رشتہ دار یا محض کسی جاننے والے کے حوالے کر کے بے فکر ہو جاتے ہیں۔ مگر ہم ایسا بھی نہیں کرتے کیوں کہ ہم اپنی قیمتی چیزوں کے معاملے میں کسی پر بھروسا نہیں کرتے چاہے وہ ہم سے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو۔ بینک اور لا کر استعمال کرتے ہیں، یا پھر گھر کی الماریوں میں تالے لگا کر رکھتے ہیں۔

ہم اپنی قیمتی چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ ذمہ داری کسی کو سونپنا نہیں چاہتے، تو پھر ہم اپنے بچوں کی حفاظت کیوں نہیں کرتے اور انہیں کیسے کسی کو بھی سونپ دیتے ہیں؟ تقریبا ہر روز ہی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آتا ہے جس کی نوعیت اتنی بے رحم ہوتی ہے کہ دل کانپ جاتا ہے۔ معصوم پھولوں کو روندنے والے یہ وحشی درندے یہ بھی نہیں دیکھتے کہ زیادتی کا شکار ہونے والا بچہ چند ماہ کا ہے یا چند سالوں کا۔

ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا ملنی ہی چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ والدین پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مسلسل نگرانی کریں۔ چھوٹے بچوں کو اکیلا گھر سے باہر نہ نکلنے دیں لیکن اگر جانا ہی ہو تو بچے کے آنے جانے کے اوقات کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اسی طرح سے بچوں کو دوسروں کے گھروں میں اکیلے جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ سکول، اکیڈمی یا مدرسہ جانے والے بچوں کو پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد سیدھا گھر آنے کی تلقین کریں اور دیر سے آنے کی صورت میں وجہ معلوم کرنی چاہیے۔

بالکل اسی طرح سے گھر آکر پڑھانے والے ٹیوٹر یا قاری کے ساتھ بچوں کو تنہا چھوڑ دینا قطعاً مناسب نہیں، انہیں ایسی جگہ پر بٹھانا چاہیے جہاں ماں کی نظر کے سامنے ہوں اور پڑھانے والے کو بھی اس بات کا مکمل احساس ہو کہ بچوں کی نگرانی ہو رہی ہے۔ ایسے واقعات میں اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ زیادتی کرنے والا شخص عموما قریبی تعلق دار ہوتا ہے، اور کئی بار تو وہ گھر کا فرد ہوتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے قریبی لوگوں پہ ماں باپ بھی اعتبار کر لیتے ہیں اور بچے بھی۔

بچوں کو کبھی کسی کے ساتھ مت چھوڑیں، اپنے کاموں کے لئے نکلتے وقت بچوں کو کسی دوست، رشتے دار یا پڑوسی کے ہاں چھوڑ دینا یا کسی کو بلا لینا غلطی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ان سب باتوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے ہی ضرور سکھائیں کہ کوئی انہیں چھو نہیں سکتا اور اگر کبھی ایسا ہو جائے تو وہ فوراً ماں کو آگاہ کریں۔ انہیں یہ بھی سمجھائیں کہ ایسا کرنے والے لوگ اکثر بچوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ وہ یہ سب کسی کو نہ بتائیں، مگر وہ پھر بھی ماں کو ضرور بتائیں۔

لیکن اگر وہ نہ بتا پائیں تو چونکہ ایسے بچے شدید ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں، ان کے رویے میں کوئی تبدیلی آئے یا وہ کسی خاص شخص یا جگہ سے کتراتے ہوں تو نوٹس لینا چاہیے۔ محض یہ سوچ کر کہ بس باہر ہی تو ہے یا فلاں کے ساتھ ہی تو ہے بے فکر ہو جانا بڑی حماقت کی بات ہے۔ ان نازک پھولوں جیسے معصوم بچوں کو مکمل توجہ اور حفاظت کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالی سب بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).