تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتی ”تبدیلی“


تبدیلی کے نعرے پر مسلسل 22 سال کی جدوجہد کرنے والی اور بالآخر حزب اقتدار میں آنے تک شاید تحریک انصاف کو حقیقی اندازہ تھا ہی نہیں کہ دراصل تبدیلی کس بلا کا نام ہے۔ کیا صرف بدل دینے کا؟ شاید وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ اُن کے پیشرو کی نہ صرف سمت غلط تھی بلکہ نیت میں بھی ازلی فتور شامل رہا جس کی وجہ سے ملک ترقی کی راہ پر جانے کی بجائے کہیں اور ہی جا نکلا۔ اور اقتدار ملنے کے بعد وہ سب کچھ درست کر دیں گے جو ان سے پہلے والے غلط کرتے رہے۔ ادراک ہوا، لیکن بہت دیر سے ہوا۔ تبدیلی وہ دو دھاری تلوار جیسی نکلی جو لکیر کے اُس پار تبدیلی کے دعویداروں اور لکیر کے اس طرف عوام الناس دونوں کو ہی زخمی کرتی چلی گئی۔

حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے کے بعد تحریک انصاف کو سب سے پہلے معاشی چیلنجز سے نمٹنا تھا۔ ملک کے مالی حالات کیسے تھے، یہ بحث پھر کبھی سہی، تاہم یہ سچ ہے کہ حالات اتنے اچھے نہ تھے۔ کپتان کے 22 سال پر مبنی سیاسی کیریئر میں سے اگر سب سے زیادہ کشید کریں تو ”کرپشن کا خاتمہ اور لوٹی دولت کی واپسی“ کا نعرہ بنتا ہے۔ وزیر خزانہ جو کپتان کی ٹیم کے سب سے قابل کھلاڑی تھے، نے معیشت میں بہتری کا بیڑہ اُٹھایا اور اوپر نیچے منی بجٹ کے ذریعے اصلاحات شروع کر دیں۔

لیکن کیا کہنے کہ لوٹی دولت واپس آئی نہ آئی، عوام کی چیخیں نکال دی گئیں۔ مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان الحفیظ۔ سوشل میڈیا پر کپتان کا مکالمہ ”میں ان کو رُلاؤں گا“ عوام کا منہ چڑانے لگا۔ سمندر میں سے کیا تیل نکلنا تھا، عوام کا پہلے نکلنا شروع ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام انتہائی صابر و شاکر واقع ہوئے ہیں۔ یہ بھی سہ جاتے، لیکن وزیر خزانہ اسد عمر کا استعفیٰ ان کی اُمیدوں کو متزلزل کر گیا۔ کیا پی ٹی آئی ناکام ہو گئی؟ یہ وہ سوال تھا جو عوام الناس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اپنے کارکان کے چہروں پر چیخ رہا تھا۔ ہم سب وہیں کھڑے تھے یا شاید اُس سے بھی پیچھے پہنچ گئے تھے۔

لیکن کیا یہ صرف عوام نے بھگتا؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ بطور سیاسی جماعت، پاکستان تحریک انصاف کو بھی دن میں تارے نظر آ رہے ہیں۔ اُن کا تشخص بری طرح مجروح ہوا ہے۔ ناقدین سراپا سوال اور مخالفین سراپا احتجاج ہیں۔ ہر دو محاذ پر پی ٹی آئی شدید مشکلات میں گھری نظر آتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے پہلے ملکی معیشت کا پُرمغز تجزیہ کرتی اور اس کے حساب سے اپنا پلان تیار کرتی۔

8 ماہ میں پہلی وکٹ کا گرنا ہرگز پی ٹی آئی کے لئے نیک شگون نہیں۔ اب اگلے پتے احتیاط سے چلنے ہوں گے۔ تبدیلی کا عمل ہر بار خوشگوار ہونا لازمی نہیں۔ بالعموم یہ تکلیف دہ ہوا کرتا ہے۔ اچھی نیت کے ساتھ میدان عمل میں اُترنے والوں کو مخالفین سے بھی پہلے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناطے تحریک انصاف میں اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں۔ کپتان کو سنبھل کر چلنا ہو گا۔ اندرونی و بیرونی تمام عوامل کو اعتماد میں لے کر ساتھ چلانا ہو گا۔ دوسری طرف عوام بھی قربانی کے لئے تیار رہیں۔ اس قوم پر مشکل وقت آنے کو ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔ یہ شاید آخری موقع ہو، بطور قوم ہمارے سنبھلنے کا۔ اگر اب ایک بار ہم اُٹھ کھڑے ہوئے تو پھر انشاء اللہ آنے والی نسلیں اپنی آنکھیں ایک مضبوط مستحکم پاکستان میں کھولیں گی۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).