بارہ سالہ سنیل کمار، مٹھو پیر اور نسیم کھرل کا “کافر”


چند دن پہلے میڈیا پر ایک خبر گردش کرتی رہی تھی کہ، سندھ کے چھوٹے سے شہر ڈہرکی کا ایک بارہ سالہ بچہ سنیل کمار گھر سے ناراض ہوکر مقامی پیر میاں مٹھو کے ڈیرے پر پہنچا اور میاں مٹھو نے کلمہ پڑھا کر اسے مسلمان کر دیا۔ بچے کے والد کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا بغیر بتائے میلے پر چلا گیا تھا۔ اس بات پر اس نے بیٹے کو ڈانٹا تھا اور بیٹا ناراض ہوکر گھر سے چلا گیا تھا اور اسے ورغلا کر مسلمان کیا گیا ہے۔

اس معاملے کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی خبریں چلیں اور سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ ہاٹ ایشو رہا۔ فیس بک پر اس بچے کو مسلمان کرنے سے لیکر، بچے کی ماں، باپ اور دیگر رشتہ داروں سے ملاقاتوں کی وڈیوز بھی سامنے آچکی ہیں۔ ان تمام وڈیوز میں بچہ اپنی مرضی سے مسلمان ہونے کی بات کر رہا ہے۔ اسے گھر واپس چلنے کے لئے کہا جاتا ہے تو بچہ انکار کرتا ہے۔ بچے کی ماں اسے گلے سے لگا کر چلاتی اور تڑپتی ہے تو اس وقت بھی بچہ وہی بات دھراتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہے۔ جب بچے سے اس کا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنا نام سنیل کمار کے بجائے عبدالرحیم بتاتا ہے۔

اس بچے کے بارے میں چند روز سندھی اخباروں میں مختلف خبریں شائع ہوئیں اور پھر یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ بچہ اپنے والدین کے پاس واپس چلا گیا۔

میں نے فیس بک پر ایسی وڈیو بھی دیکھی، جس میں وہ بچہ ایک نوجوان کے ساتھ موٹر بائیک پر بیٹھا ہے۔ اسی بائیک پر بچے کے پیچھے اس کی ماں بیٹھی ہے اور وہاں موجود کچھ لوگ ان سے بحث کر رہے ہیں کہ تم بچے کو اغوا تو نہیں کر رہے؟ اس پر نوجوان کہتا ہے کہ یہ میرا بھائی ہے، اسے اغوا کیوں کروں گا!

جو بچہ ہر وڈیو میں یہی کہتا دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہے، اگر ورثاء اسے زبردستی لے جانے کی کوشش کرتے تو وہ ضرور مزاحمت کرتا اور لوگوں کے سامنے چلاتا کہ اسے زبردستی لے جایا جا رہا ہے۔ زبردستی سے تو اسے میاں مٹھو والے بھی لے جانے نہیں دیتے، کہ وہ صرف پیر نہیں بلکہ اپنے علاقے کے طاقتور لوگ بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا سیاست سے بھی تعلق ہے۔ میاں مٹھو ماضی میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں لیکن گزشتہ الیکشن میں کسی سیاسی پارٹی نے ان کو ٹکٹ نہیں دیا تو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کھڑے ہوگئے اور کامیاب نہیں ہوسکے۔

 میاں مٹھو نے جس بچے کو مسلمان کیا تھا، وہ بچہ اپنے ورثا کے ساتھ واپس چلا گیا تو مجھے نامور سندھی لکھاری نسیم کھرل کا افسانہ “کافر” یاد آگیا۔ اس افسانے کا اختصار کے ساتھ ترجمہ آپ بھی پڑھ لیجئے:

سیتل اوڈ اپنی بیوی کے ساتھ، بغیر کسی دباؤ کے، اپنی رضامندی اور خوشی سے مسلمان ہوتا ہے اور اس کا نام عبداللہ رکھا جاتا ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں سے واسطہ ختم کرکے، اوڈوں کی بستی چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ جا کر رہتا ہے۔

کچھ عرصہ بعد اپنی بہن کی بیماری کا سن کر اس کا دل موم بنتا ہے تو وہ اپنی بہن کی طبیعت معلوم کرنے کے لیے اوڈوں کے ڈیرے پر جاتا ہے۔ روزہ نماز کا پابند عبداللہ جب عصر کی نماز کے لئے گائوں کی مسجد میں نہیں پہنچتا اور مولوی صاحب کو پتہ چلتا ہے کہ عبداللہ اوڈوں کی بستی گیا ہے تو، مولوی صاحب کے حکم سے گائوں کا ایک شخص فتح، عبداللہ کو لینے اوڈوں کے ڈیرے پر جاتا ہے۔

فتح اوڈوں کے ڈیرے کے پاس پہنچ کر عبداللہ کو آواز دیتا ہے تو عبداللہ سے پہلے اوڈوں کا مُکھی باہر نکل آتا ہے۔

مُکھی کو دیکھ کر فتح کہتا ہے، “ہمارا عبداللہ آپ کے پاس آیا ہے۔”

مُکھی غصے سے پوچھتا ہے، “عبداللہ تمہارا ہے؟”

فتح کہتا ہے، “ہاں، ہمارا مسلمان بھائی ہے، ہم اس کے ورثاء ہیں۔”

اس درمیان عبداللہ بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کی باتیں سننے لگتا ہے۔

مُکھی، فتح سے پوچھتا ہے، “فتح ایک بات تو بتائو، کل کو اگر یہ مر گیا تو اس کی بیوی کو تو نکال پھینکو گے نا۔۔۔”

“نہیں، کیوں نکال پھینکیں گے!”

“آپ مسلمان اس سے نکاح کریں گے؟”

“اگر خاتون رضامند ہوگی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔”

عبداللہ، مُکھی کو سوال و جواب میں الجھا دیکھ کر مسکرانے لگتا ہے۔

مُکھی سوال کا نیا دائو مارتا ہے، “اچھا فتح، اگر اس کی بیوی مر جائے تو اسے اپنے پاس سے رشتہ دوگے؟”

مُکھی کا سوال سن کر فتح کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے اور وہ چلاتا ہے، “مُکھی، زبان سنبھال کر بات کرو، آگے ایک لفظ بھی مت بولنا، ورنہ۔۔۔”

مُکھی خوفزدہ ہونے کی بجائے مسکرا کر کہتا ہے، “یہ کون سے قانون میں لکھا ہے کہ تم صرف لو گے لیکن دوگے نہیں۔۔!”

فتح غصے سے مُکھی کو بتاتا ہے کہ ہم اپنی ذات برادری سے باہر رشتہ نہیں دیتے اور یہ رسم ہمارے پُرکھوں سے چلی آرہی ہے۔

اس سماجی تفریق کی وجہ سے عبداللہ کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ فتح کے ساتھ جانے کے بجائے اوڈوں کے ڈیرے میں واپس چلا جاتا ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).