گندی باتیں!


پچھلا پورا ہفتہ، پاکستانی سیاستدانوں نے گندی گندی باتیں کرتے گزارا اور یوں، وطن اور اہلِ وطن، سب بہت خوش رہے۔ جیسے کچھ گھروں میں مایوں کی رسم پہ، ایک دوسرے پہ ابٹن ملی جاتی ہے۔ اسی طرح پورے ملک نے ایک دوسرے کے منہ پہ غلاظت ملی۔

وزیرِ اعظم صاحب کی حلف برداری کی تقریب سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگلے سالوں میں بارہا یہ ‘سلپ آف ٹنگ’ جو کہ میرے نزدیک ‘فرائیڈین سلپ آ ف ٹنگ’ ہے، بارہا ہنسائے گی اور آخر رلائے گی۔ جرمنی، جاپان کا قصہ ہو، یا کٹے، بچھڑے کی داستان، پانچ ارب درختوں کا قصہ ہو یا بلاول بھٹو کو صاحبہ کہنا ہو، خاں صاحب کی زبان ایسے پھسلتی ہی چلی جا رہی ہے جیسے آڑھی گوٹ پہ میرٹھ کی قینچی۔

مہنگائی، بیروزگاری، ماحولیاتی آلودگی، ملک کے دگردگوں سیاسی حالات، ہمسایوں سے تعلقات، ملک کی معاشی زبوں حالی، سب پیچھے رہ گیا ہے اور مغلظات کا ایک طوفان ہے، جس کے جواب میں اس سے بھی زیادہ فحش تقاریر جاری ہیں۔ ہماری نئی پود جو ابھی سیاست کو اتنا نہیں سمجھتی، اسی رویے کو سیاسی رویہ سمجھ رہی ہے۔ کچھ تو اس سے بدظن ہو چکے ہیں اور باقی اس کے عادی۔

جمہوریت کا یہ مذاق، سیاستدانوں کے ہاتھوں ہی بن رہا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ اس قدر حماقتیں کرنے والا شخص اتنے بڑے عہدے پہ کیسے بیٹھا رہ سکتا ہے؟ بیٹھنا تو چھوڑیئے، یہاں تک آ بھی کیسے سکتا ہے؟ جاننے والے جانتے ہیں اور بوجھنے والے بوجھ چکے ہیں۔

اسی ہماہمی میں،لکس سٹائل ایوارڈز کی نامزدگیاں سامنے آئیں اور کئی فنکاروں نے اس وجہ سے ان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا کہ، علی ظفر جو کہ مبینہ طور پہ میشا شفیع کو ہراساں کرچکے ہیں، اس فہرست میں بہترین اداکار کے لیے نامزد ہیں۔ ایک کے بعد ایک فنکاروں نے لکس سے لاتعلقی کا اعلان کیا کہ ہم اس شخص کو بے گناہ ثابت ہونے تک کسی بھی نامزدگی کے قابل نہیں سمجھتے اور ایسے ایوارڈ کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔

دوسری طرف، ہمارے کئی سیاستدان، کھلم کھلا، خواتین سے بدتمیزی اور بد زبانی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ جنسی ہراسانی کے الزامات کو دیکھئے تو خیر سے ایک کو چھپائیے تو دوسرے کو نکالیئے۔ بلاول بھٹو کو ان ہی کے خوف سے اپنے نام کے ساتھ ‘زرداری’ کا لاحقہ لگانا پڑ رہا ہے۔ بہتر یہ ہی ہو گا کہ وہ سر اٹھا کے اپنا نام، فقط بلاول بھٹو بتایا کریں۔

یہ پدرسری معاشرہ، جہاں بے نظیر بھٹو جیسی عورت کو بھی وہی سب سننا اور سہنا پڑا جو کہ کسی بھی عام عورت کو سہنا پڑتا ہے، اس معاشرے سے یہ کیسے برداشت ہو سکتا ہے کہ بلاول، اپنے نام کے ساتھ اپنی ماں کا نام لگائے یا کوئی بھی شخص اپنے نام کے ساتھ اپنی ماں کا نام لگائے۔

لڑکیوں کے نام کے ساتھ باپ کا لاحقہ لگایا جاتا ہے اور شادی کے بعد، شوہر کے نام کا دم چھلا۔ اس سماج میں جب، بے نظیر بھٹو سامنے آتی ہے تو وہ بیگم زرداری نہیں، بے نظیر بھٹو ہی رہتی ہے۔ اس بے نظیر کے بیٹے کے لیے یقیناَ ‘صاحبہ’ کا لفظ، باعث ِ تحقیر نہیں ہو گا۔

دکھ اس بات کا بھی ہے کہ ‘سلیکٹیڈ وزیراعظم’ کے طعنے کے جواب میں یہ بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں، وزیراعظم پاکستان ہے۔ ایک جمہوری عہدے کی اس سے زیادہ کیا تحقیر ہو سکتی ہے؟

اس ملک کی نصف کے قریب آبادی، ‘صاحبہ’ ہے۔ کیا ہمارا ہونا ایک گالی ہے؟ میں ان فنکاروں کو سلیوٹ کرتی ہوں جنہوں نے فقط الزام کی بنیاد پہ ہی ایک ‘مسو جنسٹ’ کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پہ نامزد ہو نے سے بھی انکار کر دیا اور ان سیاستدانوں، پارٹی کارکنوں اور عہدے داروں کے حق میں دعائے خیر کرتی ہوں جو ایک ‘مسو جنسٹ’ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ خدا ان کی مسکراہٹ بھی قائم رکھے اور ان کے اندر پایا جانے والا عورتوں سے نفرت کا جذبہ بھی۔

جوابی کارروائی کے طور پہ بلاول بھٹو نے جو زبان استعمال کی اس سے ان کی ‘سیاسی بلوغت’ کا اندازہ بھی بخوبی ہو رہا ہے۔ وہ بھی جان گئے ہیں کہ اس ملک میں بس اتنی جمہوریت ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کو گندی گندی باتیں کہہ سکیں۔ ایمپائر کو کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ لگے رہو منا بھائی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).