اے کاش کہ ہم بھی طائر ہوتے


اے کاش کہ ہم بھی طائر ہوتے۔ ناں ای سی ایل میں مندرج ہونے کا ڈر ہوتا ناں اپنی جنم بھومی پر لینڈ کرنے کے لیے شناختی کارڈ کی بحالی کی کوفت سے گزرنا پڑتا۔ لامحدود آزاد فضاوں پر جی بھر کر راج کرتے اور خوب چہچہے بھرتے۔ روے زمین پر تو ایک جان دار قہقہہ بھرنے پر آنکھیں باہر آ جاتی ہیں۔

عالی الانسل ہوتے تو برگد کے کسی بھی درخت کی شاخِ بلند تر پر صحبتِ دوستاں کے مزے لوٹتے اور عوامی ہوتے تو دیواروں کی منڈیروں پر بھی حُّریتِ طائرانہ کے وہ فطری جوہر دکھاتے کہ ماروی سرمد اور احمد رضا قصوری جیسے حقوقِ نسواں و مرداں کے چیمپئن بھی ہماری مثالیں دیتے ناں تھکتے۔

ویسے، نہیں معلوم کہ آخرُالذکر موصوف حقیقتاً قصور کے ہیں بھی یا نہیں ایرانیوں کے نزدیک حضرت اقبال بھی تو لاہوری ہیں! کیا ہی اچھا ہوتا کہ نام کا علاقائی لاحقہ جائے پیدائش کی بجاے بعد از وفات طے پاتا، کم از کم تا ابد حدفِ تشکیک تو ناں ٹھہرتا۔ کیا خبر جنابِ قصوری کتم عدم سے وجود میں آئے اور کب لاہور کی بار کونسل پہنچ گئے [خدارا، برا مت منائیے کوئی، یہ سب از راہِ تفنن کہا، کسی کی علاقائیت کو چیلنج کرنا کسی حّریت پسند پرندے کا شیوا نہیں ہو سکتا۔

طاءر ہونے کی خواہش کا ایک سبب روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ پرندے آٹے دال کے بھاؤ یا BREAD AND BUTTER جیسے بنیادی غذائی محاورات سے آشنا نہیں ہوتے۔ اسلامی جمہوریہ میں بھاؤ ہندوی روایت کے مطابق آٹے دال کا ہو یا فرنگیوں کے BREAD AND BUTTER کا، رمضان میں بھی الامان، الامان ہی کہنا پڑتا ہے۔

پھلوں سبزیوں کا حال بھی مذکورہ محاورات کی آئینی تفسیر سے مختلف نہیں۔ اب انگوروں کے رس تک رسائی کی بات ہی کر لی جائے، ’خواہ قبل از کشید یا ازاں بعد‘ غریب آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ پرندوں کے لیے یہ ’رسائی‘ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ ’عملِ کشیدگی‘ کے قابل نہیں ہوتے اور صرف تازہ ترین پھل کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انگوروں کی کشیدگی اربابِ اختیار کو زیبا ہے اور تعلقاتی کشیدگی ’شرفاء وقت کا خاصہ ہے۔ ‘ بالخصوص جب وہ حکومت میں ہوں۔

نجم سیٹھی کی چڑیا تو آج کل روزوں سے ہے [ان کا اپنا پتہ نہیں ] لیکن صحافتی مکھیوں کا دعوہ ہے کہ چودھری نثار علی خاں طوطا چشمی کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ’اگرچہ ہمارے بٹیر اس پکار کو چند پہاڑی کووں کے بد ہضمی ڈکاروں سے بڑھ کر کچھ نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک شخصی جماعت سے دوسری شخصی جماعت میں جا کر نثار جیسے ادارتی پس منظر کے آدمی کو کیا ملے گا؟ البتہ ہمارے نونی مکتبہ فکر کے ایک ناراض نثاری بٹیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ چودھری صاحب کی مبینہ مہاجرت ادارتی حکم کی تعمیل بھی تو ہو سکتی ہے۔

اس بات میں تھوڑا دم ہے۔ کیوں کہ کپتان کے ہنسوں نے اقبال کے شاہینوں کو ’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان‘ بھلا کر ’عمران خاں دے جلسے چ اج میرا نچنے نوں جی کر دا‘ کے نشے میں بد مست کر دیا ہے۔ اور بد مست خواہ ہاتھی ہو یا عمران کے شاہینی ہنس، اچھے نہیں ہوتے۔

چودھری صاحب زیرک سیاست دان ہیں، ممکن ہے اداروں کی متمنی نئی قیادت کو LPG کی بہتر پِک سے کوئی صورت آ جائے۔ ورنہ بُزدار کی بُزداری کارکردگی نے تو کم و بیش اِنجن ہی سِیز کر ڈالا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ NAK [نثار علی خاں ] کی قوتِ شامہ بھی خوب ہے۔ اگر بلند پرواز مضطرب چیلیں آنے والی آندھی کی خبر دے سکتی ہیں تو چودھری صاحب بھی بدلتی ہوا کو خوب سونگھ سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ وہ گزشتہ دو اڑھائی برس سے بدلتی ہواؤں کا رُخ بھانپنے کے چکر میں چکری تک محدود ہوئے بیٹھے ہیں۔

بہرکیف، مدعا یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی راولپنڈی اور اس کے گرد و نواح میں خاصی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں اسد عمر پر گرنے والی بجلی اور فردوس عاشق اعوان کی بنتی قسمت ایک نیا ہی نغمہ سنا رہی ہے۔ فواد چوہدری جیسے جغادری کووں کی بات تو رہنے ہی دیجیے کہ انھیں ہر موسم اور ہر حالت میں پیاسا ہی رہنا ہے کیونکہ وہ ’پیاسا کوّا‘ والی حکایت سے آج تک باہر نہیں آ سکے اور ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ انھیں اپنے لیے راستہ کیسے نکالنا ہے۔

جہاں تک نثار علی خان کا تعلق ہے، تو وہ فقیر کے خیال میں اس بار ان لوگوں کی صف میں شامل ہونے کو ہیں جن کے ساتھ وقت بسا اوقات دھوکہ کر جاتا ہے۔ ظاہراً اس میں کوئی حیرانی کی بات نہ ہو گی کہ روزوں کے بعد کسی یکایک آندھی کے نتیجے میں وہ پنجاب کے تخت پر بیٹھے نظر آئیں لیکن اپنے تمام تر ادارتی پس منظر کے باوجود ان کا مزاج ایسا نہیں کہ وہ زیادہ دیر تک کسی کی بھی تابع فرمانی میں چل سکیں۔ اس لیے اگر کسی دھما چوکڑی کے نتیجے میں ایسا کچھ ہو بھی گیا تو بات تا دیر بن نہیں پائے گی۔ ان کی سخت مزاجی اور ذاتی سوچ اصل اہلِ اختیار کے لیے قابلِ قبول نہ ہو گی۔ چنانچہ جلد ہی ایک نیا تانا بانا سامنے آنے لگے گا۔

ممکنات میں بہت کچھ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہر شاخ پہ اّلو بیٹھے ہوں تو دن کے اجالے میں کچھ نظر نہیں آتا لیکن تبدیلی راتوں رات آ جاتی ہے البتہ انا پرستی کے پہاڑ پر چنگارتا ققنس اپنی ہی آتش میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).