کون سے صدارتی نظام کا ماڈل پاکستان کیلئے مناسب ہے


صدارتی نظام اگرچہ جمہوریت ہی کی ایک شکل ہے لیکن پاکستان میں اس کی حمایت اور مخالفت کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھا گیا ہے۔ جس کی کلیدی وجہ آمروں کی اس نظام سے خصوصی دلچسپی ہے جنہوں نے اسے طاقت کے ارتکاز کے لئے استعمال کیا۔ حالیہ منظرنامے میں یہ صدا کسی آمر کی طرف سے نہیں بلکہ کچھ آمریت نواز پس منظر رکھنے والے پارلیمانی افراد کی طرف سے بلند کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے اس مرتبہ بھی صدارتی نظام کو ایک سنجیدہ جمہوری طرز عمل کی بجائے محض ایک لایعنی بحث کے طور پر ہی چھیڑا گیا۔

ان سب کے باوجود ہمارے ملک میں صدارتی نظام کا نعرہ بہت سوں کو پرکشش کیوں لگتا ہے۔ اس کی کم از کم دو وجوہات تو ضرور معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ تصور کہ صدارتی نظام سے مراد امریکی طرز حکومت ہے جہاں ہر ادارہ علیحدگی اختیارات کے اصول پر سختی سے کاربند ہے اور صدر مملکت کا عہدہ ایک رومانوی کردار جیسا لگتا ہے جو کہ بظاہر ہر ادارے سے برتر ہے۔ دوسری وجہ ایوب عہد کا تصور ہے۔ مطالعہ پاکستان، جو کہ نوے فیصد طالبعلموں کے لئے بنیادی تاریخی ذریعہ ہے، کے مطابق محمد بن قاسم سے شروع ہونے والی تاریخ پاکستان، تحریک پاکستان کی جدوجہد کو عبور کرتی ہوئی قیام پاکستان کے انتظامی و آئینی مسائل پر روشنی ڈالتی ہے اور بطور خاص اقتدار کی رسہ کشی کے ذکر سے تنگ ہوتی ہوئی ایوب عہد کے سنہرے انتظامی کارناموں پر آ کر سکون کا سانس لیتی ہے۔

اس کے بعد اس دور کے انتظامی کارناموں کے سحر میں گم ہو کر اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ تہتر کے آئین پر موہوم سا اثر ڈالتی ضرور ہے لیکن صرف اس کے خواص کی حد تک۔ اس کے بعد کے ادوار گویا کہ زیر بحث لانے کے لائق ہی نہیں۔ رہی سہی کسر سیکنڈری سے لے کر سی ایس ایس کے امتحانات پوری کردیتے ہیں جن میں ان ادوار سے متعلق سوالات کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔

صدارتی نظام بھی ایک جمہوری طرز سیاست ہے جس کا بنیادی اصول علیحدگی اختیارات ہے۔ اس نظام میں انتظامیہ اور مقننہ علیحدہ ہوتے ہیں اور اسی بنیاد میں دونوں کی انتخابی عمل کو بھی ایکدوسرے سے علیحدہ اور براہ راست عوامی تائید کے تحت رکھا جاتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ پاکستان کے سماجی اور سیاسی حالات صدارتی نظام رائج کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں مگر دنیا بھر میں صدارتی نظام کچھ مخصوص حالات کی بنا پر ہی اپنایا گیا۔

امریکی صدارتی نظام ان کی ریاستوں کی مرہون منت ہے۔ دوسرے الفاظوں میں میں امریکی وفاق، ان کی ریاستوں کے اتفاق رائے سے قائم ہوا نہ کہ وفاق نے ریاستوں کو قائم کیا۔ برطانوی و فرانسیسی اور دیگر یورپی اقوام کے سامراجیت کے باہمی جھگڑوں سے علیحدگی اختیار کرنے کے لئے امریکی ریاستوں نے ملکر جدوجہد کی اور برطانیہ اور فرانس سے یہ منوانے میں کامیاب رہے کہ ان کی جنگوں اور تنازعات کے اثرات اس خطے تک نہیں پہنچنے چاہیئیں البتہ تجارتی و ثقافتی تعلقات سمیت دیگر غیر سیاسی معاملات کی کھلی آزادی دی گئی۔

اس مطالبے میں نظم لانے کے لئے امریکی ریاستوں نے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جس کی عملی شکل صدارتی نظام کی صورت میں ابھری۔ ریاستوں نے کانگریس کے دو ایوانی مقننہ کے ذریعے قانون سازی اور مالی امور پر اپنی نمائندگی یقینی بنائی جبکہ انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لئے باہمی اکثریتی رائے سے صدر کا عہدہ بنایا گیا۔ امریکی صدور نے یورپی اقوام کے جھگڑوں سے بے نیاز ہونے کے لئے منظم طور پر سفارتی و دفاعی پالیسیز کو رائج کیا جس سے امریکی ریاستیں اپنی خومختاری برقرار رکھتے ہوئے ایک اکائی بن کر ابھریں۔

نظام کے تسلسل سے جمہوری روایات نے اس میں جان ڈال دی اور علیحدگی اختیارات میں ایک خودکار چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنا دیا۔ جس کی بنا پر کانگریس اپنے مطلق استحقاق کے باوجود صدارتی تجاویز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بجٹ منظور کرتی ہے اور صدر انتظامی امور میں برتر ہونے کے باوجود کانگریس کی تجاویز اور قانون سازی پر عملدرآمد کرتا ہے۔ مجموعی طور پر امریکی صدارتی نظام بنیادی ریاستی ستونوں میں توازن اور باہمی انحصار پر کھڑا ہے۔

دوسرا ماڈل فرانسیسی صدارتی نظام کا ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے ڈسی ہوئی فرانسیسی قوم کا رویہ بدستور سامراجیت پر قائم تھا۔ جرمنی سے بدلے کی آگ کی چنگاریاں بھی باقی تھیں۔ نہر سوئز کے بحران میں سبکی اور افریقہ میں سامراجیت سے چھٹکارے کی تحریکیں فرانسیسی قوم کو اپنی عظمت کے زوال کی طرف تیزی سے مائل کر رہی تھیں جس سے فرانس کا قومی سیاسی ڈھانچہ عدم اعتماد کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا تھا۔ ایسے میں چارلس ڈیگال نے مرد بحران کا کردار ادا کرتے ہوئے طاقت کے مراکز کو ایک نئے آئین کے تحت صدارتی نظام کے تابع کر کے فرانسیسی تشخص کو بحال کرنے کی کوشش کی جس میں خاطر خواہ کامیابی ملی۔ فرانسیسی صدارتی نظام اپنی ماتحتی میں پارلیمانی نظام بھی رکھتا ہے لیکن چونکہ کثیرالقومی سماجی ڈھانچے کی علت سے پاک ہے اس لئے کسی کو اس نظام پر قابل ذکر اعتراض بھی نہیں۔

حال ہی میں ترکی نے پارلیمانی نظام کو خیرباد کہہ کر صدارتی نظام کی طرف رجوع کیا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 2003 سے بلاتعطل برسراقتدار ہے۔ باقاعدگی سے انتخابی عمل ہوتے رہے اور آئینی ترامیم بھی جمہوری طریقے سے کی گئیں۔ اس دوران ترکی میں نظام کے تسلسل کی وجہ سے بے مثال معاشی ترقی بھی ہوئی اور طیّب ارودگان کی شخصیت بھی ابھر کر سامنے آئی تاہم غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے جمہوریت کی بساط الٹنے کا دھڑکا مسلسل لگا رہا۔

آخر کار 2014 میں ان قوتوں کی جانب سے جمہوریت ختم کرنے کی کوشش کی گئی جسے ترکی کی عوام نے کمال بہادری سے ناکامی سے دوچار کردیا۔ اس واقعے نے طییب ارودگان کو بیوروکریسی اور فوج سمیت تمام طاقتور اداروں کے ان کے آئینی دائرہ کار میں رکھنے کے لئے ایک نادر موقع فراہم کیا۔ جس کے لئے انہوں نے 2017 میں عوامی تائید سے صدارتی نظام کی طرف رجوع کر کے اپنے ہاتھ مضبوط کیے۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ جب طییب ارودگان نے صدارتی نظام کی صدا لگائی تو تب تک عوام میں ان کی جمہوریت پسندی، جراتمندی اور عملیت پسندی کا اپنا بھرپور یقین پیدا کر چکی تھی جس کی وجہ سے ان کو مزید اعتماد حاصل ہوا۔

پاکستان کے حالات کو بحیثیّت مجموعی ان میں سے کسی ماڈل پر پرکھا جائے تو مطابقت کے اشاریے حوصلہ افزا نہیں ملتے۔ پاکستان کو اس وقت امریکی صدارتی طرز کے احیاء کے مطابق ایک ایٹمی قوت اور طاقتور پروفیشنل فوج کے ہوتے ہوئے نہ تو بیرونی طور پر سیکیورٹی خدشات ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی سیاسی صورتحال ہے کہ صوبے صدارتی نظام کا مطالبہ کر رہے ہوں۔ فرانسیسی ماڈل اس لحاظ سے مطابقت نہیں رکھتا کہ پاکستان فرانس کے برعکس کثیرالقومی سماجی ڈھانچے اور صوبائی اکائیوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک کی مناسب نمائندگی ہر صورت برقرار رکھنی ضروری ہے۔ براہ راست ووٹنگ سے منتخب ہونے والے صدر میں پنجاب فیکٹر کا سب سے زیادہ اثرانداز ہونے کے خدشے کی وجہ سے دیگر اکائیوں میں محرومی بڑھنے کا امکان رہنا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ایوبی صدارتی نظام ایشین ڈیگال بننے کی ہی ایک کوشش تھی جو کہ اکہتر میں مملکت کی عظمت کو تار تار کردینے کا موجب بنا۔

ترکی کا موجودہ صدارتی ماڈل ابھی نوزائیدہ ہے اور اس کی کامیابی کا انحصار کسی دوسری پارٹی کے برسراقتدار آکر تسلسل برقرار رکھنے میں ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ترکی کی عوام نے صدارتی طرز حکمرانی کا تحفہ آسانی سے نہیں دیا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 2003 سے مسلسل جیت کر ثابت کیا کہ وہ ترکی کے تمام طبقات اور اکائیوں کی نمائندہ قومی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی و سیاسی میدان میں بھی ایک طاقتور حیثیّت رکھتی ہے۔ پاکستان میں کم از کم اسوقت کوئی جماعت چاروں صوبوں کی نمائندگی کا دعوی نہیں کر سکتی تو صدارتی نظام تو دور کی بات ہے۔

پاکستان تو ابھی جمہوری روایات کو پختہ کرنے کی جدوجہد میں ہی ہے جس میں پارلیمانی نظام ہی اپنی اہمیت قائم کر لے تو بڑی بات ہے۔ صدارتی طرز حکمرانی میں برائی نہیں ہے لیکن یہ عمل اگر انقلابی اقدامات کی بجائے ارتقائی طرزعمل سے انجام پائے تو سب کے لئے قابل قبول ہو لیکن اس کے لئے جمہوری روایات اور رویوں کی پختگی اولین شرط ہے۔ ہمیں اس فرق کو سمجھنا ہوگا کہ جمہوری عمل کے ثمرات طرز حکمرانی سے نہیں بلکہ طرز سیاست بدلنے سے عوام تک پہنچتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).