ہم سب کو ملک کی ترقی کی امید رکھنی چاہیے


ملکی اور بین الاقوامی حالات جس تیزی سے بدلتے ہیں اس سے کسی بھی ملک کی سیاست اور معیشت کے بارے میں صحیح طرح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاست اور معیشت میں انسانی رویے اور سوچ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی رویوں اور سوچ کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ کہ یہ انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ جب امریکہ کے صدارتی الیکشن 2016 میں ہلری کلنٹن کو شکست ہوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا تو یہ دنیا کے لئے حیرت کا سبب تھا حالانکہ اس الیکشن میں ہیلری کلنٹن نے 65,853,514 جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 62,984,828 پاپولر ووٹ حاصل کیے۔

اس الیکشن میں تمام تر پیشنگوئیوں اور مقبولیت کے برعکس ہیلری کلنٹن کو شکست ہو گئی۔ ابھی حال ہی میں ہونے والے یوکرائن کے صدارتی انتخاب میں ایک ناتجربہ کار سیاستدان ہونے کے باوجود کامیڈین Volodymyr Zelenskiy جس نے 73 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ یوکرائن کے اس کامیڈین کی الیکشن میں حیرت انگیز کامیابی نے اسے عالمی میڈیا کے خبروں کی زینت بنا دیا۔ اس حیرت انگیز کامیابی سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی پروان چڑھتی ہوئی سوچ کے بارے میں پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اکثر بہت سے ملکی اور غیر ملکی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی اور دوسرے شعبوں کے بارے میں لمبے عرصے کے لیے محتلف پیشن گوئیاں تو کرتے ہیں لیکن اکثر حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹس میں کبھی ہم ایشیاء میں سب سے تیزی سے ابھرنے والے معاشی ممالک میں ہوتے ہیں اور کبھی ہماری جی ڈی پی کی شرح نیپال اور بنگلادیش سے بھی کم ہوتی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ان رپورٹوں کو بنیاد بنا کر حکومت کی اچھی یا بری کارکردگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی معاشی اور سیاسی بحران کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر پاکستانی عوام کے حوالے سے یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ آپ کو پرامید نظر آئین گے اور حکومت مخالف لوگ کو بھی امید ہے کہ حکومت مزید نہیں چل سکتی ہے۔ پچھلے دنوں وزیر خزانہ اسد عمر کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ ایک نئے وزیر کی تقرری کا اعلان کیا گیا جس سے بہت سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو مایوسی ہوئی مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو اب بھی کہتے ہیں ہم کہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن والے بھی بہت زیادہ خوش ہیں اور وہ عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ لوگ نا اہل ہیں اورحکومت چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے اور سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ ان کی حکومت نہیں گرائیں گے، گرنا انہوں نے خود ہی ہے۔

بدقسمتی سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں پارٹیوں کی سیاست صرف اور صرف اپوزیشن برائے اپوزیشن ہوتی ہے۔ مخالف سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنا ان کو ہر طرح سے ایک انتہائی نالائق حکمران ثابت کرنا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو اس پر بھی صبر نہیں آتا اور وہ اپنے مخالفین کو غدار، غیر ملکی ایجنٹ اور کبھی کبھی تو سیکورٹی رسک تک ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ان تمام حرکات کا مقصد ایک ہی امید ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کسی طرح اپنے سے کم تر ثابت کر سکیں اور خود کو عوام کے سامنے ایک اچھے متبادل کے طور پر پیش کر سکیں۔ یہ مقابلہ صرف اور صرف اپنی زبان سے شائستہ اور غیر شائستہ الفاظ کے تیر چلا کر کیا جاتا ہے ایسے ماحول میں زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کو عہدے اور وزارتیں دی جاتی ہیں جو زبان کے تیر چلانے میں ماہر ہوں اور لوگوں کو امیدیں دلائیں کہ ان کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

خدا جانے کس کی امید ٹھیک ہے اور کس کے غلط مگر ان تمام باتوں اور وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ کیا ہمیں حکومت کو ناکام ہوتا دیکھ کر خوشی محسوس کرنا چاہیے؟ یا ان کو کامیاب دیکھ کر خوشی محسوس کریں۔ بحثیت مجموعی ہماری سوچ پاکستان کی ترقی کے لئے ہونی چاہیے۔ اپنی ذاتی امید جو صرف ایک شخص یا پارٹی کے لیے ہو اس کو قربان کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ایک ہی امید رکھنی چاہیے تاکہ اس قوم اور ملک کی ترقی میں ہر کوئی اپنے حصے کی شمع روشن کر سکے اور صحیح معنوں میں عوام کی امیدوں کو پورا کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).