کپتان کھیل کے نام پر کھلواڑ کر رہے ہیں


عمران خان شروع ہی سے سیاست کے لیے کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں ایک کرکٹر کی حیثیت سے بلاشبہ دنیا میں شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کی ہے۔ اللہ تعالٰی نے مردانہ وجاہت اور حسن و جمال سے بھی نوازا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بخت نے بھی یاوری کی اور بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد تخت شاہی پر بھی متمکن ہوئے۔

کرکٹ کے عروج کے زمانے میں اندرون اور بیرون ملک لوگ ان کے دیوانے تھے۔ کم سنی ہی میں جب عزت، دولت اور شہرت کی دیوی مہربان ہو جائے تو آدمی نرگسیت اور انانیت کی اہمیت سے آشنا ہو کر خود نمائی و خودستائی کی راہوں سے گزر کر جلد ہی بے نیازی کی منزل سے آشنا ہو جاتا ہے۔ ان کی جوانی دیوانی کے د نوں کی بے شمار رنگین و نمکین کہانیاں ان کی ذات سے منسوب ہیں۔ ان کی اصل شناخت اور شہرت کرکٹ کا کھیل ہی ہے۔ کرکٹ تو وہ خوب کھیلے مگر ساتھ ہی کئی دیگر پردہ اور در پردہ معاملات کے حوالے سے کھل کھیلے۔ کھیل ان کا محبوب مشغلہ اور ذریعہ معاش بھی تھا اس لیے کرکٹ کھیلتے کھیلتے وہ کئی نازک اندام حسیناؤں اور پری پیکروں کے دلوں سے بھی کھیلنے لگے۔

مہ رخوں کے جذبات سے کھیلتے کھیلتے یکسانیت اور بوریت محسوس کی تو ان کی زلفوں سے کھیلتے کھیلتے جسموں کے علاوہ ان کے مستقبل سے بھی کھیلنے لگے۔ حالانکہ کتنی ہی نازنینوں اور مہ جبینوں نے شکوہ بھی کیا کہ ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا۔ مگر خوش پوش و خوش شکل کپتان کو تو ہر حال میں کھلونوں سے کھیلنے کی عادت پڑ چکی تھی۔ جوانی کی امنگ اور زندگانی کی ترنگ طبیعت پر غلبہ پالے تو دنیا کے رنگ سنگ سنگ چلنے لگتے ہیں اور انسان کو ننگ و ناموس کی پروا رہتی ہے نہ ہوش۔ سو پھر وہ مہ جمالوں خوش خصالوں کے ایسے درد انگیز نوحوں پر کان نہیں دھرتا جن میں اسے اس طرح مخاطب کیا جاتا ہے۔ کھلونا جان کر تم تو میرا دل توڑ جاتے ہو۔۔۔

ان کی بائیس برس کی”سٹرگل”کے بعد آخر کار سیاست کی گیم کے سلیکٹرز ان پر مہربان ہو ہی گئے اور اپنے انوکھے لاڈلے کے کھیلنے کے لیے پورا ملک ہی عطا کردیا۔ انوکھے لاڈلے نے کھیلنے کے لیے چاند کی جگہ پورا ملک ہی مانگ لیا تھا۔ سلیکٹرز جو ستر سال سے پاکستان میں سیاسی گیم کھیلنے میں مصروف ہیں، انہوں نے سیاست کے ایک کہنہ مشق اور تجربہ کار کھلاڑی کو سبق سکھانے کے لیے ایسا کیا۔ جب سے کپتان صاحب سیاست کے میدان میں آئے ہیں تواتر سے کرکٹ کی اصطلاحوں کو استعمال کر کے ان کا اطلاق سیاسی و انتظامی معاملات پر کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے شہرہ آفاق اور تجربہ کار اوپنر کا نہ صرف بیٹنگ آرڈر بدلا بلکہ اسے ٹیم سے ہی باہر کر دیا۔ حالانکہ سیاسی کھیل میں ان کی شمولیت اس شعر کے مصداق تھی

کھیل کوئی نہ عمر بھر کھیلے

ہم جو کھیلے تو جان پر کھیلے

سب جانتے ہیں کہ کپتان کرکٹ کے تو بہترین کھلاڑی رہے ہیں مگر لفظوں اور سیاست کے کھلاڑی ہر گز نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی لفظوں سے کھیلنے کی کوشش کی دوسروں کی دل آزاری اور ملک کی خواری کاباعث ہی بنے ہیں۔ ہمارے فیصلہ ساز جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھ کر کھیلنے کا جنون پیدا کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ کپتان نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست کو حق وباطل کا معرکہ سمجھ کر لڑنا شروع کردیا جس کی وجہ ملک کئی سال پیچھے چلا گیا۔ کپتان اگر واقعی سیاست کو کرکٹ کا میچ سمجھ کر کھیل رہے ہیں تو خدانخواستہ ملک کی تباہی یقینی ہے۔ کھیل میں ہار جیت زیادہ معنی نہیں رکھتی مگر کسی سیاسی اناڑی کو کھلاڑی سمجھ کر ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھما دی جائے تو اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے، جو آٹھ ماہ میں نکلا ہے۔ کپتان کرکٹ میچ کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں وہ صرف کھیل ہی ہوتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر وہ تو کھیل کے نام پر کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کب تک ان کی طرف سے آنکھیں بند کیے رکھے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).