کیا عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے اہل ہیں؟


عمران خان کا بلاول بھٹو کو صاحبہ کہنا مہنگا پڑ گیا۔ وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں آ گئے۔ ایک طرف خواتین سراپا احتجاج ہیں تو دوسری طرف سیاست دانوں نے بھی اسے بد زبانی قرار دیا ہے سوائے پی ٹی آئی کے ترجمانوں کے جو اسے سلپ آف ٹنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ عمران خان کے بیانات پر ایک تواتر سے شور و غلغلہ اٹھ رہا ہے جس کی وجہ سے ایک تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے اہل نہیں ہیں۔ ہم چند موثر دلائل سے یہ ثابت کریں گے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے اور ایک وہی ایسے شخص ہیں جو اس عہدے کے بجا طور پر اہل ہیں۔

صاحبہ والی بات میں ان کی زبان نہیں پھسلی تھی انہوں نے دانستہ یہ لفظ کہا تھا ان کا مقصد صرف اتنا تھا کہ بجلی، گیس، پیٹرول اور ادویات کی قیمتیں بڑھنے سے غمگین اور دکھی دلوں والے عوام اپنے رنج و الم کو بھلا کر مسکرا اٹھیں جس طرح وانا کے جلسے کے شرکا مسکرائے تھے بلکہ بیشتر تو قہقہہ لگا کر ہنسے تھے لیکن صحافیوں اور سایست دانوں نے اسے بہت بڑا ایشو بنا دیا۔ حالاں کہ یہی لوگ امان اللہ کی جگتوں پر خوب ہنستے ہیں۔

اس سے پہلے عمران خان نے جرمنی اور جاپان کو ہمسایہ ملک بنا دیا تو اس پر بھی نادان لوگوں نے طرح طرح کے بے سرو پا الزام لگانے شروع کر دیے جیسے یہ کہ وزیراعظم کو جغرافیے کا علم نہیں ہے وغیرہ۔ بھئی جب دنیا گلوبل ولیج ہے تو اس کے ممالک اسی ایک گاؤں میں ہی واقع ہیں پھر انہیں ہمسایہ ملک کیوں نہیں کہا جا سکتا؟

دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کے اس بیان کے بعد بے شمار لوگوں نے دنیا کا نقشہ دیکھا اور دریافت کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً نو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ ہوتا ہے باتوں باتوں میں تعلیم دینا۔ ہمارے ملک میں شرح خواندگی خطرناک حد تک کم ہے ایسے میں اسی طرح دلچسپ انداز میں لوگوں کو حصولِ علم کی طرف راغب کرنا ہماری نظر میں ایک قابلِ قدر خوبی ہے۔

انڈے، مرغیاں اور کٹے پال کر بزنس کرنے اور امیر بننے کے نادر آئیڈیے کا بھی کم فہم لوگوں نے مذاق اڑایا تھا۔ جب کہ وطنِ عزیز کی گرم آب و ہوا افزائشِ نسل کے لئے انتہائی سازگار ہے اگر آپ کو یقین نہ آئے تو مطالعہ پاکستان کی کتاب میں پڑھ لیں جس میں اس راز کا ببانگِ دہل اعلان کیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر شیخ چلی کی حماقت سے انڈے نہ ٹوٹتے تو وہ اپنے زمانے کا بل گیٹس ہوتا۔

عمران خان کی وساطت سے ہی ہم یو ٹرن کی افادیت اور فضیلت سے روشناس ہوئے وگرنہ پہلے یوٹرن لینا ایک نیگٹو بات سمجھی جاتی تھی۔ ہمارے ایک دوست نے جب شادی کا فیصلہ کیا تو سب اچھی لڑکیاں سات پردوں میں ایسے چھپ گئیں کہ تلاشِ بسیار کے باوجود وہ کوئی ایک لڑکی بھی ایسی نہ ڈھونڈ نہ سکے جو لاکھوں میں ایک ہو اور جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر ایک رشتہ طے کر بیٹھے لیکن رشتہ طے ہونے کے فوراً بعد اتنے اچھے رشتے دکھائی دینے لگے کہ انہیں اپنی حماقت پر افسوس ہونے لگا لیکن وہ کیا کرتے شادی کرنی پڑ گئی اگر انہیں یو ٹرن کی افادیت کا علم ہوتا تو یو ٹرن لے کر رشتہ توڑ دیتے اور کسی اور سے شادی کر لیتے۔

بعض لوگ مہنگائی میں ہوشربا اضافے کا حوالہ دے کر عمران خان کی اہلیت کو چیلنج کرتے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مہنگائی میں اضافہ عمران خان کی وجہ سے نہیں ہوا اس کی ذمہ داری نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ نواز شریف نے خواہ مخواہ مہنگائی کے سیلاب کو روک کر رکھا ہوا تھا اگر اس دریا کو اپنی رفتار سے بہنے دیتے تو عمران خان کی حکومت آنے تک مہنگائی ہو چکی ہوتی اور عوام کو کپتان سے یہ شکایت نہ ہوتی۔

آٹھ  نو وزرا کی تبدیلی کو نا اہلی سمجھا گیا اور دشمنوں نے یہ خبر اڑا دی کہ کپتان کو ٹیم کی سلیکشن بھی نہیں آتی۔ اس سے زیادہ لغو بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اصل میں کپتان کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا موجود ہے۔ وہ سب کو باری دینا چاہتے ہیں اسی لئے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کی۔ وہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں قوم کو اب سمجھ جانا چاہیے کہ ہر آٹھ نو ماہ بعد وزرا کو بدلا جا سکتا ہے تا کہ تبدیلی سے لطف اندوز ہوا جا سکے بلکہ وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کو بھی مستقل بنیادوں پر بدلتے رہنا چاہیے۔

سو باتوں کی ایک بات کہ ہمارے وزیر اعظم دکھی دلوں کو ہنسا کر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ چناں چہ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی ایسی بات ضرور کرتے ہیں جس پر عوام کی اکثریت بے اختیار ہنستی ہے اور کچھ لمحوں کے لئے اپنے غموں سے بیگانہ ہو جاتی ہے۔ گذشتہ حکومتوں میں تو خبرنامہ بھی انتہائی بور ہوتا تھا جب کہ اب نت نئے مضحکہ خیز واقعات اور بیانات کی وجہ سے کامیڈی پروگراموں کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی۔ بس نیوز چینل دیکھ لیا کریں سارا دن ہنستے ہنستے گزر جائے گا۔ ایسے کامیڈی کنگ وزیراعظم کو نا اہل سمجھنا بہت بڑی بے وقوفی ہے۔

ان تمام دلائل کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ موجودہ حالات میں عمران خان ہی وزارتِ عظمیٰ کے صحیح حقدار ہیں۔ اگر پھر بھی آپ کو مزید دلائل کی ضرورت ہو تو چند دن انتظار کیجیے وزیراعظم کے آئندہ بیانات اور اقدامات دیکھ کر آپ خود بخود میرے ہمنوا ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).