میرے آقا ﷺ


 

571 ؁ء بتکدہ عرب ہے، کعبہ کے اندر اور ارد گرد سینکڑوں بت رکھے ہیں زیارت کرنے والے چڑھاوے چڑھار ہے ہیں، جانوروں کی قربانیاں دی جارہی ہیں، برہنہ طواف ہورہا ہے، لڑکیوں کو زندہ دفنایا جارہا ہے، نہ ختم ہونے والی دشمنیوں کے نتیجے میں کئی کئی سال تک جنگیں برپا ہیں، جوختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، غلامی اپنی بدترین شکل میں نافذ العمل ہے، بڑا اور چھوٹا ہونا اپنی ذات پات کے حوالے سے طے پاتا ہے، جھوٹ معاشرے میں رچ بس چکا ہے، منافقت طرہ امتیاز اور ذہانت کا معیار سمجھا جاتا ہے، راستے میں کاروانوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، بتوں کو بنیاد بنا کر کاروبار حکومت چلا یا جا رہا ہے۔

جو کہ صرف اور صرف چند لوگوں کے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ہے۔ یعنی جنگل ہے اور حیوانیت کا راج ہے۔ ان تمام حقائق کے علاوہ عربوں میں ”عصبیت“ ان کے جسم میں لہو بن کردوڑتی ہے خاندانوں کے حوالے سے، رسم و رواج کے حوالے سے، اپنی ذات مرتبے اور اپنی ساکھ کے حوالے سے، ”عصبیت“ دراصل ان کی روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ جن کے لئے وہ اپنی جان دے بھی سکتے تھے اور کسی کی جان لے بھی سکتے تھے مختصراً یہ وہ صورت تھی جس میں عرب کی شب وروز بسر ہوتے تھے۔

یہی وہ دور ہے جب عرب میں وہ آواز فضا میں گونجتی ہے کہ ”نہیں ہے کوئی الہہ سوائے اللہ کے اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں“ اور ”کسی شخص کو کسی دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے“ آقاﷺ کے اس پیغام نے عرب میں تہلکہ مچا دیا اس پیغام سے وہ سارا انظام لرزگیا، اس کی بنیادوں میں زبردست ارتعاش پیدا ہوا ایک طرف سینکڑوں سالوں پر محیط نظام، ان کی بودوباش، ذات پات، رہن سہن اور عصبیت کی مضبوط دیواریں اور دوسری طرف محمد مصطفیﷺ اور ان کا پیغام ابدی۔

عربوں کے لئے یہ تحریک سوہان روح بن گئی کیونکہ غلام آقا سے ٹکراگئے غیر متوازن سماج میں توازن کے حصول کے لئے ایک تحریک پیدا ہوئی طاقت اپنی تمام تروحشت اور دہشت کے ساتھ اسلامی جماعت پر ٹوٹ پڑی اس میں حضرت سمیعہ کی عمر رسیدگی کا بھی خیال نہ رکھا گیا۔ بلال، عمار اور صہیب کوانگاروں کی طرح تپتی ریت پر بھاری پتھروں کے نیچے دبا دیا گیا۔ خیر یہ تو وہ لوگ تھے جو معاشرتی طور پر کمزور تھے، آقاﷺ کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو تصور نہیں کیا جاسکتا۔

جنہیں مجنون کہا گیا، ساحرکہ کر منادی کرائی گئی، ان سے ملنے سے لوگوں کو جبراً روکا گیا، آقا پر غلیظ دشنام طرازی کی گئی، راستے میں کانٹے بچھائے گئے، سجدے کی حالت میں ہوتے تو ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی جاتی پھر بھی ان ظالموں کو سکون نہ ملا چنانچہ شعب ابی طالب میں محصور کردیاگیا، تین سال کا اذیت ناک عرصہ جس میں مکہ والوں نے آپ ﷺ اور جماعت کے دوسرے لوگوں سے معاشرتی مقاطعہ کیے رکھا۔ اسی دوران آپ ﷺ کی عزیز ترین شخصیات چچا حضرت ابو طالب اور ام المومنین حضرت خدیجہ کا انتقال ہوا جس نے آپ کو بے پناہ غم کی حالت میں مبتلا کردیا ( اور اس سال کو ”عام الحزن“ بھی کہاجاتا ہے ) ان تمام و اقعات اور حادثات جو آپ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ گزرے مشرکین اور کفار کے غصے، نفرت انتقام، حسد اور دشمنی کے جذبات کم نہ ہوئے بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ نعوذباللہ آپ ﷺ کے قتل کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ اور قریش کے ہر ایک قیبلے سے ایک ایک آدمی اس حیوانیت کے لئے چن لیا گیا لیکن آپ ﷺ وہ رجل عظیم تھے جنہیں قتل نہ کیا جاسکتا تھا لہذا قتل کے منصوبے کی رات آپ ﷺ نے امانتیں لوگوں کو پہنچانے کی غرض سے حضرت علی کو تفویض کرکے اس رات خود حضرت ابوبکر کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

تین ایام تک غار میں پناہ لینے کے بعد دوبارہ اپنا سفر شروع کرتے ہیں دوران سفر حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ ایک سوار ہمارا پیچھا کرتے ہم تک پہنچ چکا ہے، یہ سوار سراقہ بن مالک ہے صدیق فرماتے ہیں کہ یارسولﷺ یہ مکمل طور پر مسلح ہے، تو آپ ﷺ فرماتے ہیں ”لاتحذن ان اللہ معانا“ یعنی غم نہ کربے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ”سواونٹوں کی لالچ میں سراقہ بن مالک قتل کے ارادے سے آخر کار آپ کے بالکل قریب پہنچ جاتا ہے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں جس کے نتیجے میں سراقا کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے ہیں اور اس واقعے کے فوراً بعد سراقہ سمجھ جاتا ہے کہ جس عظیم الشان شخصیت سے وہ مقابلہ کرنے آیا ہے وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں یہ دیکھ کر وہ آپ ﷺ سے امان طلب کرتا ہے۔ کہ آپ مجھے تحریر کردیں کہ بعد میں مجھے قتل نہ کیا جائے۔ آپ ﷺ یہ تحریر لکھوادیتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ سراقہ سے فرماتے ہیں“ اے سراقہ اس وقت تیراکیا حال ہوگا جس وقت توکسریٰ کے کنگن کو پہنچے گا۔ وہ حیرت سے پوچھتا ہے کسریٰ بن ہر مز؟ آپ اسباب میں جواب دیتے ہیں کہ ”ہاں“

قارئین کرام زراغور فرمائیے کہ عرب کے رسوم ورواجات، مذہب، ان کی بے پناء عصبیت پھر جب آپﷺ اسلام کی دعوت کا اعلان کرتے ہیں تو آقا سے انتہائی عداوت و نفرت شعب ابی طالب کی محصوریت، انتہائی خوفناک مظالم ہجرتیں، بغض، دشمنی اور یہاں تک کہ قتل کا منصوبہ اور پھر مکہ سے مدینہ ہجرت، دونوں شہروں کا فاصلہ 370 کلومیٹر ہے اور بیاباں راستہ ہے دشمن قتل کے ارادے سے پاگل ہوئے جارہے ہیں، ان تاریک، مخدوش اور ابترحالات میں کہ جہاں کوئی بھی بڑا آدمی حوصلے ہار بیٹھے اوسان خطا کربیٹھے، اپنے سارے ارادے توڑ بیٹھے لیکن آپ ﷺ کے عزم و استقلال اور نصب العین (وژن) کی عظمت کا وہ مقام ہے کہ ایک عام عرب کے ہاتھوں میں دنیا کی ایک عظیم سپر پاور کے بادشاہ کے ہاتھ کے کنگن پہننے کی نوید سناتے ہیں اور پھر ایسا ہو کر رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).