سونامی، ناکامی اور بدنامی


اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ملکی معیشت کی نبض ڈوب رہی ہے خارجہ پالیسی کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے پشتون اور بلوچ اپنے حقوق کے لئے رو رہے ہیں قومی اسمبلی سمیت پارلیمنٹ کا کردار غیرموثر ہو چکا ہے لیکن حکومت ماورائی احتساب میں مصروف ہے میڈیا صدارتی نظام پربحث کررہا ہے ادارے ہمسایہ ممالک پرالزام اوردشنام طرازی کے بعد اپنے ہم وطنوں میں غداری کے فتوے بانٹ رہے ہیں روم کی قسمت میں ایک نیرو تھا ہماری قسمت میں نہ جانے کتنے نیرو ہیں؟

ملک میں صدارتی نظام کا درس ایسے دیا جارہا ہے جیسے ڈیم فنڈ کے لئے چندہ اکٹھا کرنے جیسا مذاق ہو رہا ہو صدارتی نظام کے نعرے اورآمریت کی مثال دینے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ آئین معطل کرنے کا کہہ رہے ہیں اور آئین کی معطلی اور اس اقدام میں مدد کرنے والا موجودہ آئین کے تحت سنگین غداری کا مجرم ہے۔ آئین شکنی کا پہلو بالائے طاق بھی رکھ دیا جائے تو ایک منتخب حکومت کو غیرمستحکم کر کے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت لانے کا حالیہ تجربہ کیا صدارتی نظام سے کم ہے؟

میڈیا کی زبان بندی ہے، نیب کو ذاتی پولیس کے طورپراستعمال کیاجارہا ہے پارلیمنٹ کی بے توقیری ہورہی ہے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑنے والے اپنی ناکامی کا ملبہ نظام پر ڈال کر راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی ان سے پوچھے کہ گزشتہ دس سال میں آئین کی بحالی، صوبائی خودمختاری، این ایف سی ایوارڈ، گلگت بلتستان کو آئینی حقوق ملنا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی، بلوچستان میں امن کی بحالی، کراچی کو روشنیاں لوٹانے اوربجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو کس نظام نے ممکن بنایا؟

پارلیمانی نظام ناکام نہیں ہوا بلکہ درحقیقت کٹھ پتلیاں بنانے والے اور انہیں چلانے والے ناکام ہوئے ہیں۔ چور دروازے سے اقتدار میں آنے والوں کی نا اہلی نے یہ دن دکھائے ہیں ملکی جمہوری پارلیمانی سیاسی نظام کو ذاتی مفادات اور پسند ناپسند کے لئے غیرمستحکم کرنے والوں نے یہ گُل کھلائے ہیں۔ ملک میں صدارتی نظام کی بجائے شہنشاہیت رائج کر دی جائے تو بھی کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ نا اہلیت کا کوئی علاج نہیں۔

حکومت پر تنقید کرنے والے خاموش ہوتے جار ہے ہیں جو بات وہ پچھلے کئی سال سے کہہ رہے تھے اب کہنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہر وہ قول ِ زریں جو تحریک انصاف کی قیادت نے ماضی میں فرمایا آج اس کے منافی عمل پر وہی ٹویٹ، وہی تقریر اور وہی نعرہ ان کا پیچھا کرتا پھر رہا ہے۔ ایک فقرہ سوشل میڈیا پرزبان زدعام ہے کہ سونامی سے شروع ہونے والا سفر ناکامی سے دوچار ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ بدنامی کی جانب گامزن ہے۔

لکی عمرانی سرکس نے محض آٹھ ماہ میں وہ ریکارڈ توڑے ہیں کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام عش عش کر اٹھے ہیں۔ کوئی وزیرموت کے کنویں میں معاشی موٹرسائیکل کو قلابازیاں دلا رہا ہے تو کوئی سفارتکاری کی تنی ہوئی رسی سے فری فال کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہے کوئی رنگ ماسٹر کی طرح شیر کے پنجرے کے گرد رقصاں اسے تاؤ دلا رہا ہے تو کوئی چھلانگ لگا کر ہاتھی پر سوار ہونے کی کوشش میں ہے۔ کوئی ساز بجانے میں ماہر ہے تو کوئی آواز لگانے میں لیکن سب سے اونچی آواز باہر کے جنگلے پر بیٹھے ہاکرز کی ہے جو شائقین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے آوازے کسنے کے ساتھ ڈگڈگی بھی بجاتے جاتے ہیں

دنیا بھر میں تنقید حاکمِ وقت پر ہوتی ہے لیکن پاکستان میں براجمانِ مسند بضد ہیں کہ ہرغلطی، ہرکوتاہی اورہرنا اہلی کو اپوزیشن کے کھاتے میں ڈالا جائے اور انہیں ہی ہدفِ تنقید بنایا جائے۔ یہ بھی پہلی بار سننے کو مل رہا ہے کہ حکومت کو کام کرنے دیجئے تنقید نہ کیجئے کوئی ان سے پوچھے کہ تنقید کام کرنے میں معاون ہے یا کام سے روکتی ہے؟

یہ تبدیلی ہی توہے کہ مودی جس کا یار بھی غدارکہلاتا تھا سے ٹیلی فون پر بات کرنے کے لئے کوئی مجسم التفات بنا رہتا ہے اورامید پھربھی بَر نہیں آتی۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت ایران کے انتقال کرجانے والے صدرسے بھی فون پرتفصیلی گپ شپ کرلینے پرقادرہے؟ یہ تبدیلی ہی تو ہے کہ نا اہلی اورخراب کارکردگی پر وزیراعظم وزارت داخلہ کا قلمدان خود سے ہی واپس لے لیتا ہے اور ناکامی پر تنبیہہ بھی کرتا ہے یہ تبدیلی ہی تو ہے کہ تبدیلی جماعت کا پوسٹربوائے اور الیکشن سے بھی پہلے نامزدکردہ وزیرخزانہ محض آٹھ ماہ میں ہاتھ کھڑے کردیتا ہے اوراس کی خالی نشست پر بٹھانے کے لئے پوری پی ٹی آئی میں سے ڈھونڈے سے کوئی بندہ نہیں ملتا۔ یہ بھی توتبدیلی ہے کہ وزارت خزانہ کی کنجی اسے سونپی گئی ہے جسے ماضی میں ملکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دارٹھہرایا جاتا تھا۔

اسد عمر آٹھ ماہ میں ملک کا کتنا نقصان کر کے گئے؟ اس کا خمیازہ کون بھگتے گا؟ یہ تو ہم نہیں پوچھتے لیکن انہیں چاہیے تھا کہ الوداعی پریس کانفرنس میں محض اتنا ہی اعتراف کرتے جاتے کہ گانوں سے معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی۔

مختصرکابینہ رکھنے کے دعویدار، کسی سے بلیک میل نہ ہونے کے بلند وبانگ نعرے لگانے والے کی کابینہ سینتالیس افراد تک پہنچ چکی ہے جس میں سے سولہ غیرمنتخب ارکان ہیں کیا اس صورتحال کے بعد بھی پتلی تماشا دکھانے والوں کو یہ لگتا ہے کہ صدارتی نظام آ جائے تو تبدیلی آ جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).