یکم مئی: عالمی یوم مزدور!


انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔ 1884 ء میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقہ کے خلاف اُٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا۔ اپریل 1886 ء کو تمام مزدوروں نے امریکہ کے شہر شگاگو میں اکٹھے ہونے کا فیصلہ کیا اس موقع پر تقریبا 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہوئے۔ ہڑتال کو روکنے کے لیے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔

لیکن مزدور اپنی جگہ ڈٹے رہے اس ہڑتال کے دوران متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے لیکن مزدوروں کی یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی اور بالاآخر 1889 ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890 ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ شکاگو کے سرکردہ مزدور راہ نماؤں اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور اسکرنیب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں سب اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی جب کہ مائیکل شواب اور سیموئیل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔

لوئس لنگ کی جیل میں وفات ہوگئی تھی۔ ان مزدور راہ نماؤں میں سے 2 کا امریکا جب کہ باقی کا برطانیہ، آئر لینڈ اور جرمنی سے تعلق تھا۔ شکاگو کے حاکموں نے اس واقعے کو محض ”ہے مارکیٹ کے بلوے“ کا نام دینا چاہا، مگر یہ دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ 1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا اور 1890 سے اس دن کو دُنیا بھر میں منانے کا آغاز ہوا۔ اس فیصلہ کے بعد یہ دن ”عالمی یوم مزدور“ کے طور پر منایا جانے لگا۔

مزدوروں کا عالمی دن کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے کروڑوں محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بُنیاد ہیں۔ آج بھی پوری دُنیا میں ٗمیں محنت کش استحصال کا شکار ہیں۔ مزدوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد محنت کش مزدوروں کی بحالی کے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہے مگر یہ بات شاید تپتھی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے والے مزدور کو نہیں پتہ کہ دُنیا آج انہی کا عالمی دن منا رہی ہے اور اسی دن بھی انہیں آرام نہیں ہوتا۔

جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں :ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت ٗ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ٗتو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں ٗہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔ مزدوروں اور محنت کشوں کی ترقی کے بغیر نہ تو ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ اس کے عوام خوشحال ہو سکتے ہیں۔ الجزائر میں 1962 سے یکم مئی کو عام تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مصر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ کافی عرصہ قبل مصر کے صدر، یوم مئی کی تقریبات میں بطور خاص شرکت کرتے تھے۔

لیبیا میں کرنل قذافی کا تختہ الٹ جانے کے بعد 2012 میں اب اسے قومی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ نائیجریا میں اب یہ روایت بن چکی ہے کہ یکم مئی کو نائیجریا لیبر کانگریس کے صدر، ورکرز سے خطاب کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں 1994 سے یوم مئی کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ تنزانیہ، تیونس، زمباوے میں بھی اس روز تعطیل ہوتی ہے اور فلپائن میں یوم مئی 1930 سے ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، جب لوگ چھٹی کے روز ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے ہیں۔

کینیڈا میں لیبر ڈے ستمبر میں منایا جاتا ہے۔ 1894 میں حکومت نے ہر ستمبر کے پہلے پیر کو کینیڈا کا سرکاری لیبر ڈے قرار دیا۔ امریکہ میں بھی یہی دن مقرر ہے تاہم اس روز مختلف ریاستوں میں مزدور اور ورکرز جلسے جلوسوں کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ چلی میں 1931 سے یوم مئی سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ کیوبا میں یوم مئی بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ اس روز ورکزر سڑکوں پر مارچ کرتے ہیں۔ پاناما میں بھی اس دن کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس روز کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیز تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ بھارت میں سب سے پہلے یوم مئی مدارس (موجودہ چنائے ) میں یکم مئی 1923 کو منایا گیا۔ بھارت میں یہ پہلا موقع تھا جب سرخ جھنڈا لہرایا گیا۔ انڈونیشیا میں 2014 سے مئے ڈے، لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز ملک بھر کے مزدور سڑکوں پر آکر اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔ ایران میں یہ دن انٹرنیشنل ورکرز ڈے کے نام سے موسوم ہے۔

ایران میں سرکاری تعطیلات کا جو شیڈول مقرر ہے اس میں ورکرز کے لئے یہ دن بھی شامل ہے۔ جاپان میں یوم مئی کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں لیکن یہ دیگر قومی چھٹیوں کے درمیان آتا ہے اس لئے جاپانی ورکرز کی اکثریت اس روز چھٹی کرتی ہے۔ یکم مئی جاپان کے ”گولڈن ویک“ میں آتا ہے جب کئی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ملائیشیا نے 1972 سے یوم مئی کو سرکاری تعطیل کے طور پر منانا شروع کیا۔ پاکستان میں بھی یوم مئی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔

اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور محنت کش اس روز ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا عزم نو کرتے ہیں۔ فلپائن، سنگا پور، جنوبی کوریا میں بھی اس روز عوامی تعطیل ہوتی ہے۔ فرانس میں یکم مئی کو پبلک ہالیڈے ہوتی ہے۔ اس روز ٹریڈ یونینز بڑے شہروں میں تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اس روز اپنے ملنے جلنے والوں کو پھول بھی پیش کرتے ہیں۔

جرمنی میں اپریل 1933 میں حکومت نے یکم مئی کو ”ڈے آف نیشنل ورک“ قرار دیا تھا اور اس روز چھٹی کا اعلان کیا تھا۔ جرمنی میں آج کل اسے صرف لیبر ڈے کہا جاتا ہے۔ اٹلی میں 1890 سے لیبر ڈے منایا جارہا ہے۔ اس روز رنگا رنگ تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ ناروے، پولینڈ اور پرتگال میں ورکرز ڈے کے طور پر منایا جانے والا یہ دن اس لحاظ سے یادگار ہوتا ہے کہ محنت کش پورے ملک میں پرامن ریلیاں نکالتے ہیں اور ایک جشن کا ساسماں ہوتا ہے۔

روس میں انقلاب سے پہلے یہ دن غیر قانونی طور پر منایا جاتا تھا تا آنکہ 1917 میں اسے پہلی بار قانونی حیثیت دی گئی۔ اس موقع پر ریڈ سکوائر میں شاندار پریڈ ہوتی ہے۔ سویڈن، سوئٹرز لینڈ میں بھی یوم مئی پر تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ سویڈن میں 1938 میں اسے پبلک ہالیڈے قرار دیا گیا۔ اس روز سٹاک ہوم میں نصف لاکھ سے زائد افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔

ترکی میں بھی یوم مئی کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ 1981 میں یہ چھٹی منسوخ کردی گئی تاہم 2010 میں اسے دوبارہ بحال کردیا گیا۔ برطانیہ میں 1978 سے یوم مئی کی سرگرمیاں مئی کے پہلے پیر کو منائی جاتی ہیں۔ لندن میں، لندن مے ڈے آرگنائزئنگ کمیٹی ان تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ وطن عزیز میں ابتداء میں مزدوروں کی فلا ح و بہبود اور ٹریڈ یونین معاملات کنکرنٹ لسٹ میں درج تھے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں ان امور پر قانون سازی کرنے کی مجاز تھیں۔

وفاقی حکومت نے انڈسٹریل ریلیشن آرڈینینس (آئی۔ آر۔ او 1869 ) جاری کیا۔ اس قانون کے ذریعے ایسٹ پاکستان ٹریڈیونین ایکٹ 1965 ء اور ایسٹ پاکستان لیبر ڈسپیوٹ ایکٹ 1965 ویسٹ پاکستان انڈسٹریل ڈسپیوٹ آرڈینینس 1968 اور ویسٹ پاکستان ٹریڈ یونین آرڈینینس 1968 کو منسوخ کر دیا گیا۔ ترمیمی آرڈینینس 1972 کے ذریعے آئی۔ آر۔ او 1969 میں دفعہ 22۔ اے کا اضافہ کیا گیا۔ جس کی رُو سے ملک میں پہلی بار نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (این۔

آئی۔ آر۔ سی) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ قانون انڈسٹریل ریلیشن آرڈینینس 2002 آنے پر منسوخ ہو گیا۔ پھرانڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2008 پاس ہوا۔ یوں آئی۔ آر۔ او 2002 بھی منسوخ ہو گیا۔ اس قانون میں بھی این۔ آئی۔ آر۔ سی کو بحال رکھا گیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئی۔ آر۔ اے 2008 کی اپنی دفعہ 87 ( 3 ) میں یہ درج تھاکہ یہ قانون اگرپہلے ہی ختم نہ کر دیا گیا تو یہ 30 اپریل 2010 کو ازخود ختم ہو جائے گا۔ اس دوران 20 اپریل 2010 ء کو اٹھارہویں آئینی ترمیم پاس ہوئی۔

اور کنکرنٹ لسٹ ختم کر دی گئی۔ اب ٹرید یونین اور لیبر معاملات پر قانون سازی کا اختیار صرف صوبوں کے پاس چلا گیا۔ تاہم آئین کے آرٹیکل 270۔ اے۔ اے کی شق ( 6 ) کے ذریعے ان تمام قوانین کو تحفظ دے دیا گیا جو کنکرنٹ لسٹ میں درج معاملات سے متعلق تھے اور کنکرنٹ لسٹ ختم ہونے سے پہلے موجود تھے۔ چونکہ آئی۔ آر۔ اے 2008 ء کی اپنی دفعہ 87 ( 3 ) میں اس کے اختتام کی تاریخ درج تھی اس لئے اس کا مقررہ تاریخ کو ازخود ختم ہونا منطقی بات تھی۔

یوں این۔ آئی۔ آر۔ سی بھی غیرمؤثر ہو گیا۔ بد قسمتی سے صوبوں نے بروقت قانون سازی کی بجائے تاخیر سے کام لیا۔ پنجاب نے 13 جون کو پی۔ آئی۔ آر۔ او 2010 ء جاری کیا پھر اسے نوے دن کی توسیع دی گئی اور بعدمیں پنجاب اسمبلی نے پی۔ آئی۔ آر۔ اے۔ 2010 پاس کیا اور آرڈینیس منسوخ کردیا گیا۔ صوبہ سندھ نے 5 جولائی 2010 ء کو آئی۔ آر۔ اے۔ 2010 ء پاس کیا جس کی روسے آئی۔ آر۔ او۔ 2008 ء یکم مئی 2010 ء سے بحال کر دیا گیا۔

خیبرپختونخواہ حکومت نے 14 جولائی کو آئی۔ آر۔ او۔ 2010 ء جاری کیا جبکہ بلوچستان نے 22 جولائی کو بی۔ آئی۔ آر۔ او۔ 2010 ء جاری کیا اور یہ آرڈینینس 15 اکتوبر 2010 ء کوبی۔ آئی۔ آر۔ اے۔ 2010 ء بلوچستان اسمبلی سے پاس ہونے پر منسوخ ہوا۔ صوبوں کی طرف سے قانون سازی میں غیرمعمولی تاخیرکی وجہ سے لیبر کورٹس ٗاور لیبر اپیلیٹ ٹربیونلز نے بھی عدالتی کام چھوڑ دیا۔ اس صورتحال میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں قرار دیا کہ تاوقتیکہ آئی۔

آر۔ اے 2008 ء کسی مجاز اتھارٹی کی جانب سے منسوخ نہیں کیا جاتا۔ آئین کے آرٹیکل 270۔ اے۔ اے کی شق ( 6 ) کی رو سے پوری طرح لاگو ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بھی از خود نوٹس لیا۔ حتّی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ تاخیر سے کی گئی صوبوں کی قانون سازی کا اطلاق یکم مئی 2010 ء سے ہوگا۔ یوں قانون سازی میں حکومتی تساہل سے پیدا ہونے والا خلاء اپنا قیمتی وقت صرف کر کے عدلیہ کو پر کرنا پڑا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعدلیبر معاملات پرقانون سازی کاحق اگرچہ صرف صوبوں کے پاس چلا گیا۔

پھر بھی وفاقی حکومت نے آئی۔ آر۔ اے 2012 ء پاس کرکے نافذ کر دیا۔ اور اس ایکٹ کے ذریعے این۔ آئی۔ آر۔ سی کو پھر بحال کر دیا۔ مزدور کے لئے دادرسی حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اکثر مزدور یہ شکائت کرتے ہیں کہ کئی کئی دہائیاں ملازمت کرنے کے باوجود انہیں تقرر نامہ دیا جاتا ہے نہ اوور ٹائم۔ جب کہ ان سے مقررہ اوقات سے کئی کئی گھنٹے زائد کام لیا جاتاہے اور اگر تقررنامہ دیا بھی جائے تو صرف نوے روز کے لئے دیا جاتا ہے پھراس میں من مرضی سے مزیدنوے روز کی توسیع کردیجاتی ہے اور اس طرح کئی کئی برس ان کے سر پر کسی وقت بھی فارغ کر دیے جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔

بسا اوقات بغیروجہ بتائے زبانی حکم کے ذریعے فارغ کر دیا جاتا ہے نیز اجرت حکومت کے مقررہ سٹینڈرڈ سے بھی کم ملتی ہے جبکہ کام آٹھ گھنٹے کی بجائے 12 گھنٹے سے زائد لیا جاتا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلینس موجود نہیں۔ یہ وجہ ہے کہ غریب کے خون پسینہ کا اس بدلہ نہیں ملتا۔ ملک کی ترقی ٗ خوشحالی میں مزدور کا خون بھی شامل ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لیبر قوانین کی اہمیت کا احساس کیا جائے۔ اور لیبر لاز کو عام فہم سادہ اور مؤثربنایا جائے۔ اگر یونہی چشم پوشی سے کام لیا گیا اور لیبرقوانین کو بہترکرنے کی طرف توجہ دینے میں مزید تساہل برتا گیا تو آجر اور مزدور کے مابین بد اعتمادی کی فضا سے بحران میں مبتلا ملکی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).