والدین اپنی ناکامیوں کا بدلہ بچوں سے کیوں لیتے ہیں؟


عادل میرا اچھا دوست ہے۔ ان چند دوستوں میں سے ایک جن سے مہینوں بعد بھی بات ہو گی تو یوں کہ کبھی رابط منقطع ہوا ہی نہ تھا۔ رابطہ ہو توکیسا یہ یوں سمجھ لیں کہ دونوں ذات کے جٹ ہیں اور ہر وقت ٹھیک بارہ بجے ہوتے ہیں۔ ہنستے ہیں تو شتر بے مہار ہنستے چلے جاتے ہیں اور بات سیریس موڑ لے لے تو ایسے لمبے لمبے تبصرے کہ خدا کی پناہ۔ تبصرے کا لفظ دانستہ طور پر اس لیے استعمال کیا کیونکہ ہم میں ہمیشہ اک فریق نان سٹاپ بولتا چلا جاتا ہے اور دوسرا وقفے وقفے سے ہوں ہاں کے ساتھ ”ہاں جی ٹھیک پے آکھدے او“ دہرانا نہیں بھولتا۔ پہلے بھی کئی بار دل چاہا اس موضوع پر لکھوں مگرہر بار ضمیر پر بلیکس لاء ڈکشنری کی موٹی تازی کتاب رکھ کر اس کی آواز کو وقتی طور پر دبانے میں کامیاب رہی۔

ہم دونوں میں ہمیشہ ڈسکس ہونے والا اک مستقل موضوع کرکٹ ہے۔ کرکٹ جو مجھے جنون کی حد تک دیکھنا پسند ہے اور عادل کو کھیلنا۔ گوجرانوالہ کے اک نواحی گاؤں میں پلنے بڑھنے والے اک بچے کا بچپن کا ایسا خواب یا کی تعبیر کے جاگتی آنکھوں سے سپنے دیکھنے کا وہ عادی سا ہو گیا تھا۔ اسلامیات کے استاد جب پڑھایا کرتے تھے والد کی اطاعت و فرمانبرداری میں جنت ہے تو وہ نادانستہ سوچتا اگر مجھے اس فرمانبرداری کے بدلے جنت مل گئی اور وہاں میرا دل کرکٹ کھیلنے کو چاہا تو بھلا بریٹ لی اور اس کے دیگر پسندیدہ کرکٹر اس سے کھیلنے جنت میں کیسے آ سکیں گے؟ جیسے جیسے کلاسیز کی درجہ بندی پڑھتی گئی عادل کے کرکٹ کا جنون بھی بڑھتا گیا۔ مگر اس کے والد صاحب کے خیال کے مطابق یہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ برادری میں سر اٹھا کر چل سکیں اس کے لیے عادل کو پڑھنا ہو گا، کوئی افسر بننا ہو گا۔

گاؤں سے لاہور آنے تک بقول سے کے اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آنے تک ( اس اعلیٰ تعلیم کو دہراتے ہوئے ہمیشہ اس کے لبوں پر تمسخر بھری مسکراہٹ ابھرتی ہے ) اس نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے بہتر ہاتھ پیر مارے، بہت پھڑپھڑایا مگر بے سود، خواہش جو جنون کی حدوں کو چھو رہی تھی صرف اسلامیات کے استاد کی بتائی اک بات تلے دبی رہی کہ ”والد کی ناراضی میں خدا کی ناراضی ہے“۔

عادل کو پہلے والد صاحب نے ہی مشورہ دیا کہ اس کو ایل ایل بی کرنا ہے۔ موصوف چارو ناچار لاء گریجویٹ ہوئے تو اک دن خوشی خوشی پوچھنے لگے پریکٹس کرنی ہے لاہور میں اچھا یونیفارم بھلا کہاں سے ملے گا؟ اپنی طرف سے بہترین مشورہ دینے کے بعد میں مطمعین ہو گئی کہ چلو یہ تو فیلڈ میں سیٹ ہو گیا۔ اک عرصے بعد دوبارہ بات ہوئی تو کیا معلوم ہوتا ہے ابا جی کی سوئی اک بار پھر گھوم گئی ہے۔ اب ان کی نئی ڈیمانڈ ہے کہ وہ سی ایس پی افسر بنے، اس کے سوا چارہ نہیں۔ تازہ معلومات ملنے کے بعد مجھے دلی طور پر بہت دھچکا لگا اس لیے نہیں کہ میرا دوست نالائق ہے سی ایس ایس پاس نہیں کر سکتا اس لیے کہ اس پتلی تماشے کی کوئی تو آخری منزل ہو۔ مجھے لگا والدین اکثر بس اس اک احسان کے لیے کہ انہوں نے پیدا کیا ہے اولاد کی ساری زندگی سراپا آزمائش بنا دیتے ہیں۔

اس نے اس بار سوچ لیا ہے اس معاشرے میں عزت کے حصول کے لیے جو اک مخصوص مقام ہوتا ہے اب وہ وہیں پہنچ کر دم لے گا۔ والد کی خواہش کو اپنی خواہش بنا کر پوری جان مار دے گا تا کہ مزید کسی آزمائش کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ اس بار تبصرے کی باری شاید اس کی تھی کہنے لگا میرے استاد ہمیشہ جانتے تھے میں کرکٹ کو لے کر ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوں شاید اسی لیے مڈل میں اک استاد نے میری ڈائری پر لکھا تھا ”خبردار رہنا! والدین اکثر اپنی ناکامیوں کا بدلہ اپنی اولاد سے لیتے ہیں“ جو جملہ اس وقت سمجھ نہیں آیا تھا وہ اب پل پل یاد آتا ہے۔

پہلے جو اک خلش تھی کہ کاش کرکٹ کھیل پاتا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شکوے میں بدل گئی، نہ چاہتے ہوئے بھی والد صاحب سے شکایت کرنے کا دل چاہتا کہ آپ نے کاش میری خواہش کی قدر کی ہوتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ شکوہ آہستہ آہستہ پچھتاوے میں بدل گیا ہے۔ پچھتاوا کہ کاش میں نے ثابت قدمی دکھائی ہوتی۔ ایسے لوگ بھی تھے جو کہتے تھے ہم تمہارے ساتھ ہیں اپنے مقصد پر ڈٹے دہو۔ پچھتاوا کہ خدا نے اک ٹیلنٹ دیا تھا مگر جانے انجانے میں اس کی بے قدری ہو گئی۔ پچھتاوا کہ کاش اپنے خواب کے تعاقب میں گھر سے بھاگ گیا ہوتا۔ وہ بولنے لگا تو بولتا چلا گیا میرے استاد نے میری ڈائری پر حرف حرف سچ لکھا تھا مگر میں خود سے یہ وعدہ کرتا ہوں اپنی اس ناکامی کا بدلہ اپنی اولاد سے کبھی نہ لوں گا۔

وہ بولتا چلا گیا اور میں سوچتی رہی آخر کب تک والدین بچوں پر ان کی خواہش کے خلاف اپنی مرضی مسلط کرتے رہیں گے۔ ؟ کب تک ذات، برادری، اور معاشرے کی جھوٹی شان و شوکت پر اپنے بچوں کی خوشیاں وارتے رہیں گے؟ کب تک وہ مشکلات جو اصولاً بچوں کو معاشرے کی طرف سے جھیلنا پڑتی ہیں ان کو گھر سے رہ تکتی ملیں گی؟ کب تک اپنی وقتی تسکین کے لیے، اک ڈاکٹر، انجینئر یا افسر کے والدین کہلوانے کے لیے اپنے بچوں کو اپنی خواہشات کی لاشوں کے ساتھ تا عمر قید تنہائی میں ڈالتے رہیں گے؟ ان کو گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کرتے رہیں گے؟ ۔ آخر کب تک؟ میں سوچنے لگی تو سوچتی چلی گئی اپنی سوچ میں اتنی مگن ہو گئی کہ ”ہاں جی! ٹھیک پے آکھدے او“ کہنا تک بھول گئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).