خالدی کے 35 سال اور گول پتھر کی بددعا


پرانی کہاوت ہے۔ کسی نے پتھر سے پوچھا کہ تم اس قدر گول کیسے ہو گئے ہو؟ تو پتھر نے جواب دیا کہ زمانے کی ٹھوکروں نے مجھے گول کر دیا ہے۔ آج ایسے ہی ایک دوست کی کہانی جو اپنوں کی ٹھوکروں سے گول ہی نہیں بلکہ گول مگول ہو گیا۔ فیس بک کے مخالفین بھی اس امر سے انکار نہیں کر سکتے فیس بُک کی وجہ بہت سے گمشدہ افراد بھی مل شدہ ہو گئے ہیں۔

گزشتہ دنوں مجھے ایک خاتون کے فیس بُک اکاؤنٹ سے ان بکس میسج موصول ہوا کہ ”میرے پنتیس سال لوٹا دو“ میرا تراہ نکل گیا۔ کیونکہ کسی ہمدرد نے ہماری زوجہ محترمہ کو اطلاعاً عرض کیا تھا کہ ”تم ککو بھائی کا فیس بُک اکاؤنٹ دوسرے ٹیبلٹ سے استعمال کر سکتی ہو۔ “ (بندہ پوچھے ایسے ہمدرد کو بندہ کیا نام دے) زوجہ محترمہ کیونکہ گھریلو خاتون ہیں۔ اور فیس بک کم ہی استعمال کرتی ہیں۔ البتہ گاہے گاہے گھر بیٹھے میرے فیس بُک اکاؤنٹ کو بحق FBIچیک کرتی ہیں اور بعد میں ضرورت پڑنے پر تفتیش کے مراحل سے بھی دو چار کرتی ہیں۔ تو اس ”تراہ“ کا نکلنا گویا قدرتی عمل تھا۔ جبکہ دوست جانتے ہیں میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔

تو میں نے جواب عرض کے طور پر اخلاقاً پوچھا کہ ”سوری میں آپ کو نہیں جانتا“

جواب آیا

جرار کدھر ہوتا ہے؟

تمہاری امی کا کیا حال ہے؟

پھر ایک حوصلہ افزا میسج آیا

میں نے آج تک فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ نہیں بنایا تمہیں اپنی بیوی کے اکاؤنٹ سے میسج کر رہا ہوں۔

شکر الحمد للہ کا ورد کیا۔ کہ یہ میسج دست اندازی  زوجہ ماجدہ سے باہر ہے۔ مگر ہنوز دلی دور است۔ ۔ کیوں کہ ابھی تک اس نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اور میں سارے تیر اندازے سے چلا رہا تھا۔

دماغ نے کہا شاہ جی فیس بُک توں کال فری جے۔ کال کی۔ اوئے میثاقے کیا حال ہے۔ یہ نام سکول کی دین تھا ہر نام کے ساتھ بڑی ”یے“ اور چھوٹی ”ی“ کا اضافہ حسبِ ضرورت کیا جاتا تھا۔ میثاقے، خالدی، طاہری، توقیرے اور کامرانے وغیرہ وغیرہ۔

میں نے ٹیسٹر چھوڑا۔ گالی دی۔ گالی سنتے کہنے لگا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تو میثاق ہی بول رہا ہے۔ نام بتانے کی طرف وہ ابھی بھی نہیں آ رہا تھا۔ وہ کسوٹی کسوٹی کھیل رہا تھا۔

میں نے پوچھا ہوتا کدھر ہے، ؟ برمنگھم۔ ہیں؟

یا اللہ یہ کون ہے؟

آج میں جو کچھ ہوں تری وجہ سے ہوں۔ یہ میری حیرانگی پر مسلسل تیسرا وار تھا۔

اؤ یار اللہ کا واسطہ ہے بتا۔ نام کیا ہے؟ کہنے لگا پتر اتنی جلدی۔ نہیں۔ اس دوران میرا دماغ بہت تیزی سے فائلیں ”پھرول“ رہا تھا۔

تم سے آخری دفعہ ملا تو پھر میں پشاور امی کے پاس چلا گیا۔

اؤئے۔ ۔ ”خالدی“؟

دوسری طرف سے آنسو ملی ہنسی میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔

اوئے خالد یار تجھے بہت تلاش کیا۔ کہاں ہے؟

پہلے تُو بتا۔ کہاں ہے؟

میں نے کہاں ہونا ہے؟

میں انگلینڈ ہوتا ہوں۔

یار آج میں جو کچھ ہوں تری وجہ سے ہوں

میری وجہ سے؟

ہاں تری وجہ سے۔ ورانہ آج بھی میں کسی گھر کے پوچا لگا رہا ہوتا۔

خالد جاوید اور میں تیسری کلاس سے ایک ساتھ تھے۔

خالد کا سارا جسم باتیں کرتا تھا چوڑے چوڑے اعضا مناسب قد چمکتی مگر اداس اور ہمہ وقت سوچتیں آنکھیں۔ خالد ”خاتم الشرارتین“ اور طرہ یہ موصوف میرے ہم بینچ تھے

سن 77 میں ذوالفقار علی بھٹو کی مہربانی سے ہم بغیر امتحان دیے پاس ہو کر ایف جی گرلزہائی نمبر 8 سکول سے بوائے ہائی سکول نمبر 6 میں آئے تو ایک انجانا سا خوف ہمارے سروں پر سوار تھا 8 نمبر سکول میں تو ہمیں ”مسیں“ پڑھاتی تھیں اور یہاں ”سروں“ کے زیر سایہ تعلیم کا حصول کیونکر ممکن ہو گا؟ گرلز سکول میں املی، اُلوچے، کچے لوکاٹ، کھٹائی اور چورن کھاتے اور کلاس روم کی فضائی آلودگی کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے۔  گرلز اسکول میں مار پڑنے یا چوٹ لگنے پر ”اوئی اللہ“ کہنے کی سہولت بھی میسر تھی۔ 9 thاور 10 th کی باجیوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور ہوم اکنامکس کے پریڈز میں ان کے چولہے اور دیگر سامان اٹھانے کے بدلے ان کی مسکراہٹ یا بے سوادے کھانے کو مل جاتے۔

مگر 6 نمبر ہائی سکول میں یکسر ماحول تبدیل ہو گیا اور اس وقت سمجھ آئی کو ایجوکیشن کے کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں۔

مگر جلد ہی ہمیں احساس ہوا کہ اس مردانہ ماحول میں دیار ِ زنانہ سے زیادہ مزے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہماری جنس تبدیل ہونے لگی اور ہم مردانہ ماحول میں پر پرزے نکالنے لگے اکثر لڑکے ہمارے ساتھ ہی 8 نمبر سکول سے ترقی پا کر 6 نمبر سکول میں آئے تھے۔ جن مقصود چوہا، ساجد ٹڈا، توقیر پروفیسر، اظہر آف واہ گارڈن، شفقت ٹھیکیدار عرف نلی پُت عرف NLP 2۔ عارف گجراتی، ظفر باجی، ممتاز توا، اور جاوید سالا۔ ہم نے

” اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے“

پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ ایسی ایسی شرارتیں کہ سوچتے ہوئے بھی حیرت ہوتی ہے شرارتوں میں خالد ہمارا مونٹیر تھا۔ لڑکوں اور ٹیچرز کے نام رکھنے کا مجھے اور خالد کو ملکہ حاصل تھا۔ اسی ہمہ ہمی میں میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا خالد کبھی کبھی بالکل خاموش ہو جاتا تھا اور اس پر سنجیدگی کا بھوت سوار ہو جاتا۔ یہ اپنے اندر خود ایک حیران کن بات تھی۔ اُس نے کبھی بتایا بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ البتہ میں نے نوٹ کیا کہ خالد کا سردیوں میں یونیفارم مناسب نہیں ہوتا تھا پرانا نیلا سوئٹر تلووں سے محروم کالے بوٹ جو بارش کے پانی کی آمدورفت روکنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ سکول سے چھٹی کے بعد خالدی تیر کی تیزی سے گھر کی طرف بھاگتا۔

میرے اور خالد کے گھر میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ میں مہا آوارہ گرد واقع ہوا تھا مگر چھٹی والے دن بھی میں نے کبھی اسے باہر نہیں دیکھا تھا ایسا کیوں تھا؟ کسی کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ دسمبر اور گرمیوں کی چھٹیاں سب زیادہ ناپسند والدین کو ہوتیں ہیں ایک بچہ بھی تھا اس کا نام خالد تھا۔ جو ان چھٹیوں کو ناپسند کرتا تھا بلکہ ان چھٹیوں کا نام سنتے ہی اداس ہو جاتا تھا ایک دفعہ کسی نے بتایا کہ خالد جس کے پاس رہتا ہے وہ اس کے پھوپھا ہیں۔ میرے لئے یہ انتہائی حیران کن خبر تھی۔

خالدے کیا معاملہ ہے؟ اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دو موتی لہرا گئے اگلا سوال کرنے کی مجھے ہمت ہی نہیں ہوئی خالد کے اندر کا بچہ نا جانے کب کا مر چکا تھا؟ اسے 7 thکلاس میں ہی گوشت سبزی اور کریانہ کے ٹھیک ٹھیک بھاؤ معلوم تھے اسے معلوم تھا کمرے میں پوچا کیسے لگایا جاتا ہے ننھے ننھے ہاتھوں سے گھر والوں کی ٹانگیں کیسے دباتے ہیں؟

خالد کوئی اتنا لائق فائق طالب علم نہیں تھا البتہ کبھی فیل نہیں ہوا تھا۔ وقت کا گھوڑا اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہا تھا ایک دن اچانک سکول میں مجھے اطلاع ملی کہ میرے ابو کا انتقال ہو گیا ہے۔ کلاس میں ایک آواز جو مجھ سے بھی زیادہ اونچی آواز میں رو رہی تھی وہ آواز خالد کی تھی۔ مجھے بھول کر کلاس کے لڑکے اسے چپ کرانے لگے۔ میری والدہ کو بچوں کی فوج کو پالنے کے لیے ابو کی جگہ فیکٹری میں جاب مل گئی۔ زندگی کی ریل گاڑی کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد پھر رواں دواں ہو گئی۔

ایک شام خالد اپنے چھوٹے سے بیگ کے ساتھ میرے دروازے پر کھڑا تھا۔ میثاقے یار مجھے اپنے گھر رکھ لو۔ پیپرز کے بعد چلا جاوں گا۔ ظاہر ہے یہ میرے اختیار میں نہیں تھا میں نے کہا شام تک امی فیکٹری سے واپس آتی ہیں تو کچھ فیصلہ ہو گا۔ شام کو امی آئیں تو خالد نے امی کو ساری کہانی سنائی۔ خالہ جی اب میری برداشت سے باہر ہو گیا ہے پلیز مجھے کچھ اپنے گھر رکھ لیں میں گھر کے سارے کام کر دیا کروں گا امی نے خالد کو گلے لگایا اور رو پڑیں اور بتایا کہ میں خود گھر نہیں ہوتی اور میثاق کے ابو بھی حال میں فوت ہوئے ہیں گھریلو حالات ایسے نہیں۔ خالد سمجھ دار تھا سب سمجھ گیا۔

مجھے کہنے لگا یار اب کیا کروں؟

میں نے کہا تری امی کہاں ہوتی ہیں؟

پشاور۔

بھاگ جا امی کے پاس۔

اس کے بعد خالد مجھے کبھی نہیں ملا۔

کچھ دن پہلے بھابھی کے اکاؤنٹ سے میسج آیا کہ 35 سال لوٹا دو

یار تری وجہ سے آج میں ایک کامیاب ترین انسان ہوں۔ پشاور اپنی امی کے پاس گیا تو امی بھی باقی بہن بھائیوں کو پال رہی تھیں مجھے دیکھ کر پریشان ہو گئیں مگر میں نے اپنا بوجھ خود اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹھیکیدار کے ساتھ مزدوری کرنے لگا اور تعلیم بھی جاری رکھی پھر شادی ہو گئی مگر محنت کا سفر جاری رہا پھر کسی طرح بلیجیم آ گیا یہاں آ کر معلوم کہ یہ دنیا ہی اور ہے۔ یہاں آ کر بھی میں نے تعلیم جاری رکھی آج میں جیگوار کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر ہوں۔ جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میں دو سال کا تھا رشتے داروں نے کام کر سکنے والے بچوں کو برابر برابر تقسیم کیا اور میں اپنی پھوپھی کے حصے میں آ گیا۔ خالد بول رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ پنجرے سے اڑا ہوا پرندہ آج اقبال کا شاہین بن گیا ہے

میثاقے ”تجھے بہت تلاش کیا ہے یار“

میں نے بھی بہت تلاش کیا تھا یار ایک دن تری پھپھو سے ملا تو ترا پوچھا تو محترمہ خالد نام سے بالکل ہی ناآشنا ہونے کا ڈرامہ کرنے لگیں۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا ”آنٹی بددعا بھی پیچھا کرتیں ہیں“، میرے اس جملے پر ”کیا مطلب“ کہا؟

حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).