عمرانیات (جدید) کے عظیم قائد کے چند اصول


بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں جدید عمرانیات کے بانی عالمی مفکر جناب عمران خان صاحب نے جو اخلاقی اصول متعارف کروائے ہیں بلا شبہ علمی اور قومی میراث کا درجہ رکھتے ہیں ذیل میں ان کے چند آفاقی حیثیت کے حامل اصولوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

پہلا اہم اخلاقی اصول یہ ہے کہ کوئی بھی کام یا اقدام بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ اس کے اچھے یا برے ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کام کو کون انجام دے رہا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ بانی عمرانیات کا مخالف کسی بھی صورت کوئی اچھا کام کر ہی نہیں سکتا لیکن پھر بھی خدانخواستہ اس سے کوئی اچھا کام سر زد ہو بھی جائے تب بھی وہ عمرانی نظریہ کے مطابق اچھا کام کہلانے کی خاصیت سے محروم ہو گا۔

جبکہ دوسری طرف بانی عمرانیات کسی مجبوری کے تحت کوئی برا یا غیر مناسب کام بھی انجام دیتے ہیں تو یہ کام ان کی سحر انگیز شخصیت کی بدولت ایک احسن کام شمار ہو گا۔ بانی عمرانیات کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری ہوئی ہے جس میں یہ اصول اپنے نقطہ عروج پر نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی منتخب وزیر اعظم پی ایم ہاؤس کی عمارت میں رہائش اختیار کرتا ہے تو یہ ایک بہت ہی برا عمل ہے اس لئے کہ جس ملک کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوں اس کے وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ مزین اور مہنگی عمارت میں رہے۔ لیکن اگر بانی عمرانیات وزارت عظمی کے منصب پر فائز کر دیے جائیں تو پھر ان کا پی ایم ہاؤس میں رہنا کسی بھی صورت برا عمل شمار نہیں ہو گا اس لئے کہ عمرانیات کے ماہرین کی رائے کے مطابق موجودہ وزیر اعظم پی ایم ہاؤس کا چھوٹا سا حصہ ہی استعمال کرتے ہیں اور مہمانوں کو بسکٹ اور چائے پر ٹرخا دیتے ہیں۔ !

اسی طرح اگر کسی صوبے کا وزیر اعلی اپنے عوام کو سفری سہولیات مہیا کرنے کے لئے میٹر و بس کا منصوبہ لانچ کرتا ہے تو وہ جنگلہ بس پروجیکٹ ہی کہلائے گا اس لئے کہ جب عوام کو صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات میسر نہ ہوں تو ایسے حالات میں اس طرح کے منصوبے عوام کے پیسے کے ضیا ع کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اگر میٹر وبس کا منصوبہ بانی عمرانیات کی حکومت والے صوبے میں لانچ کیا جائے اور بری طرح فلاپ بھی ہو جائے تب بھی اچھا اقدام ہی کہلاتا ہے اس لئے کہ کسی بھی منصوبے کے معتبر ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس کی نسبت بانی عمرانیات سے ہو۔

اسی طرح اگر پانامہ لیکس میں دو سو پاکستانیوں کا نام آ جائے تو عمرانی اصول کے مطابق کرپٹ صرف وہی لوگ کہلائیں گے جو بانی عمرانیات کے مخالف ہوں گے۔ اور اگر یہ بھی ثابت ہو جائے کہ خود بانی محترم بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں تو اس صورت میں اسے کرپشن کی بجائے کاروباراور انویسٹمنٹ ہی لکھا اور پڑھا جائے گا۔

اگر ملک کی بڑی عدالت کسی سیاسی رہنما کو نا اہل قرار دے دے تو عمرانی اصول کے مطابق نا اہل شخص کی سیاسی سرگرمیاں جرم کے زمرے میں آئیں گی لیکن اگر بانی محترم کی پارٹی کا نا اہل شخص حکومتی اجلاسوں کی صدارت بھی کرے تو یہ عمل ملک و ملت کی خدمت کے سوا کچھ نہیں کہلائے گا۔

اگر کسی مخالف سیاستدان کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم خود چل کر پاکستان آ جائے تو وہ اس برے عمل کے نتیجے میں عمرانی اصول کی روشنی میں غدار اور مودی کا یار کہلائے گا جبکہ اگر اسی مودی سے فون پر بات کرنے کے لئے وزارت عظمی کے منصب کے وقار تک کو داؤ پر لگا دیا جائے تویہ عالمی سطح پر قیام امن کی کوشش کہلائے گا۔

بانی عمرانیات کا دوسرا بڑ ا ا خلاقی ا صول یو ٹرن ہے یہ ایسا اصول اور نظریہ ہے جو بانی عمرانیات کی نگا ہ میں عظیم لیڈر ہونے کی علامت ہے یہ نظریہ جب پیش کیا گیا تو دنیا بھر کے علمی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی علمی دنیا کے لوگ اس بات پر پریشان تھے کہ اتنے بڑے اہل علم اور نظریہ ساز شخص کا پالا کیسے نا اہل عوام سے پڑا ہے۔ !

22 سالہ جدوجہد میں مختلف اوقات میں بانی عمرانیات نے اپنے مداحوں کو اس اصول پر عمل کرنے کا درس دیا۔ اس عمرانی اصول کی لا تعداد مثالیں عمرانیات کا ایک روشن باب ہیں یہاں ہم ان مثالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بانی عمرانیات کے اقتدار میں آنے کے بعد پنپنے پانے والے اس اصول کا ذکر کریں گے جس نے پوری تبدیلی سرکار کو اپنے سحر میں لیا ہوا ہے۔

آج کل اس اصول پر سب عمرانی اصولوں سے زیادہ عمل ہو رہا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بانی عمرانیات سمیت نئے پاکستان کی پوری کابینہ اور یوتھ ونگ کے مجاہدین سب اسی اصول پر عمل کرتے نظر آتے ہیں یہ اصول تشکیل تو بہت پہلے پا چکا تھا لیکن اس سے پہلے اس کا میدان صرف سوشل میڈیا تھا لیکن بانی عمرانیات نے جب اپنی حکومت ناکام ہوتی دیکھی تو اس اصول کو بروئے کار لانے کا سوچا اور طے یہ پایا کہ اگر اپوزیشن یا تبدیلی سرکار کا کوئی بھی مخالف حکومت کے خلاف ہزرہ سرائی کرے تو اسے ایسی زبان میں جواب دیا جائے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گزشتہ چند مہینوں میں سابق ہوئے وزیر خزانہ اور وزیر طلاعات نے اس عمرانی اصول پر دل و جان سے عمل کیا۔

ا س اہم عمرانی اصو ل کو بیان کرنے کے لئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے کچھ بھی فرض کر لیں دشنام گوئی، الزامات کی بوچھاڑ، نا اہلی چھپانے کے لئے برے القاب دینے، یا اپنی نا اہلی کا سارا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالنے کا اصول وغیرہ۔

بانی عمرانیات نے بطور وزیر اعظم اپنے اسی مذکورہ اصول پر عمل کرتے ہوئے وانا میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو ”صاحب“ کی بجائے ”صاحبہ“ کہہ کر مخاطب کیا۔ گویا انہوں نے بطور وزیر اعظم اور تبدیلی سرکار کے سربراہ کے طور پر اپنے اس اصول پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے عمرانیات کا حصہ بنا دیا ہے۔ اس لئے مستقبل میں یوتھ ونگ سے لے کر پوری تبدیلی سرکار کی طرف سے پوری تندہی سے اس اصول پر عمل کیا جائے گا۔

عمرانی اصولوں کے بہت سے مخالفین جناب وزیر اعظم کے اس بیان کو خواتین کی توہین قرار دے رہے ہیں جبکہ عمرانیات کے ماہرین (جن میں تبدیلی سرکار کی خواتین بھی شامل ہیں ) کے مطابق خان صاحب نے خواتین کی کوئی توہین نہیں کی اگر عمرانی اصولوں کو دیکھا جائے تو یقینا یہ ماہرین درست ہی کہہ رہے ہیں اس لئے کہ پہلے عمرانی اصول کے مطابق خان صاحب سے نسبت رکھنے والا عمل غلط ہو ہی نہیں سکتا البتہ ان کے مخالفین کا ہر درست عمل بھی غلط ہی کہلائے گا۔

اب بلاول بھٹو زرداری کو ہی لے لیجیے جو سوال و دلیل کا اسلحہ کندھے پر سجائے پارلیمنٹ جا پہنچتے ہیں اور تبدیلی سرکار کے غبارے سے ہوا نکال دیتے ہیں ان حالات میں عمرانی اصول یہی کہتے ہیں کہ جیسا تیسا کر کے بلاول کے کندھے پر سجے سوال اور دلیل کا گلا دبا دیا جائے۔ جناب وزیر اعظم اور ان کی حکومت سوال اور دلیل کا گلا دبانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ مذکورہ کمزور اور گھسے پٹے عمرانی اصولوں کے ساتھ سوال اور دلیل کا گلا گھونٹنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).