چاندی کی کڑاہی، دیگ اور برقعہ


(پاکستان تحریک لبیک کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری کے معافی نامے کی خبر آئی تو درویش کو اپنی بارہ برس پرانی ایک تحریر یاد آ گئی جو لال مسجد اسلام آباد کے آپریشن سے کوئی چار روز قبل 7 جولائی 2007ء کو بی بی سی اردو پر شائع ہو ئی تھی۔ کتنے زمانے گزر گئے۔ زمانے کا دستور وہی ہے۔ اہل منبر و محراب کے شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں۔ عشق کے دردمند حسب معمول راندہ درگاہ ہیں۔ نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی۔۔۔ مدیر)

٭٭٭          ٭٭٭

کوئی دو درجن معصوم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگر لال مسجد بریگیڈ نے موت کے کنوئیں سے باہر گھنٹی بجا بجا کر ’ناظرینِ باتمکین‘ کے لیے جس خصوصی آئٹم کا اعلان کیا تھا وہ تماشا ابھی تک نہیں ہو سکا۔ مولوی عبدالعزیز فیشن ایبل برقعہ زیبِ تن کیے ’بشارتوں‘ کے جلو میں نمودار ہوئے ہی تھے کہ دھر لیے گیے۔ مولانا کو گمان تھا کہ وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’باجو‘ کی گلی سے ہو کر الجزیرہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر جلوہ افروز ہوں گے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ تین جولائی کی سہ پہر پرویز مشرف کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس نے باجو کی گلی ہی تیغا کر دی ہے۔ جن پتوں پہ تکیہ تھا وہ ہوا ہی نہیں لُو کے تھپیڑے دینے لگے۔

پاکستان کی آبادی کے 70 فیصد حصے کی عمر30 برس سے کم ہے۔ ان کی اکثریت نے اردو اخبارات میں جیّد علماء کی بے پناہ قربانیوں کے افسانے پڑھے ہیں اور تحریکِ پاکستان کی نصابی تاریخ کے ایسے قِصے ازبر کر رکھے ہیں کہ قائدِاعظم پیچیدہ سیاسی مسائل پر علماء سے رہنمائی کے لیے کیسے بیتاب رہتے تھے۔ ضیاالحق نے مطالعہ پاکستان کا مضمون لازمی قرار دیا تو ایک مذہبی جماعت کے حامی اساتذہ کی بن آئی۔ معاوضے پر لکھوائی گئی ان کتابوں میں باالتزام ایک باب ’اسلامی نظام کی جدوجہد میں علماء کا کردار‘ کے عنوان سے باندھا گیا۔

سابق نیوز ڈائریکٹر سید برہان الدین کے مطابق ضیاالحق ٹی وی پروگراموں میں مولوی صاحبان کی شرکت پر خصوصی زور دیتے تھے۔

نسیم حجازی کے ناولوں میں ہیرو ایک طرف تو مسیحی شہزادی پر عاشق ہوتا تھا دوسری طرف صاحبِ شمشیر مجاہد بھی ہوتا تھا جس کی ریش مبارک میں ہر وقت وضو کے قطرے آویزاں رہتے تھے۔ افغان جنگ اور کشمیر میں مداخلت سے تو گویا دبستاں کھل گیا۔ جیتے جاگتے مجاہدین گلے میں بندوق لٹکائے، دین کے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔ لاہور اور کراچی میں ان مجاہدوں کے جلوس نکالے جاتے تھے۔ البتہ ڈبل کیبن گاڑیوں پر جوتم پیزار کی خبریں اخبارات تک نہیں پہنچتی تھیں۔

بدھ کی شام لال مسجد سے قطار اندر قطار برآمد ہوتے دینی طلباء اور پھر برقعہ پوش مولانا کی گرفتاری دیکھ کر ایسے ان گنت نوجوانوں کے خواب ٹوٹے ہوں گے جو قوتِ ایمانی سے لیس لال مسجد بریگیڈ سے شجاعت کی امید رکھتے تھے۔ جوشیلی تقریروں سے سادہ لوح نوجوانوں کو لڑنے مرنے پر آمادہ کرنا اور بات ہے پر خود اپنے لیے آتشِ نمرود میں کودنے کا فیصلہ کرنا کچھ اور ہوتا ہے۔

نفاذِ شریعت کے لیے دوسروں سے خودکُش حملوں اور جہاد کا حلف لینے والوں کا اپنی جان بچانے کے لیے کم سِن بچوں کو ڈھال بنانا اور سادہ لوح عوام کے جذبات بھڑکا کر خود ’باب الحیل‘ کے راہ سے فرار ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ لال مسجد کو لال قلعے کا استعارہ بنانے والوں کے کھیل میں ابھی تک حکومتی حکمتِ عملی کے طفیل عام اندازوں سے کسی قدر کم جانی نقصان ہوا ہے۔ سو کچھ ایسے تاریخی واقعات کی باز آفرینی میں کچھ مضائقہ نہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ یہ مرحلہ تو سیاست میں بارہا گزرا ہے۔

تحریکِ خلافت میں لاکھوں نوجوانوں کو گھربار، تعلیم اور روزگار چھوڑ کر ہجرت پر اُکسانے والے خود ہندوستان میں بیٹھے رہے تھے۔ دسمبر2001 میں ہزاروں معصوموں کو مزار شریف اور قندھار میں بے موت مروا کر صوفی محمد عرف شریعت والے خود ایک سہانی صبح زندہ سلامت وطن لوٹ آئے تھے۔

پنجاب حکومت نے حال ہی میں صحافیوں کو جو کالونی الاٹ کی ہے اسے زمیندار اخبار کے مدیر اور شعلہ بیان پین اسلامک خطیب مولانا ظفر علی خاں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں مولانا موصوف کو اُن کے آبائی گاؤں کرم آباد )وزیر آباد( میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ موصوف نے حکومت کو رہائی کی درخواست دیتے ہوئے پیش کش کی کہ وہ صحافت سے دست کش ہو کر شکر کا کارخانہ کھولنا چاہتے ہیں اور اِس کے لیے حکومت اُنہیں مالی امداد فراہم کرے۔ یہ درخواست نامنظور ہوئی تو انہوں نے علمی تحقیق اور ترجمے کا ادارہ قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور انگریز حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا ’چاندی کی کڑاہی کے بغیر علمی گُلگلے تیار نہیں ہو سکتے‘۔

علامہ اقبال کو سرکار پرست قرار دینے والوں کی دلچسپی کے لیے بتانا چاہیے کہ انگریزوں نے خفیہ دستاویز میں علامہ اقبال کو ’خطرناک قوم پرست شاعر‘ قرار دیا تھا۔

کچھ برس بعد حجاز (موجودہ سعودی عرب) میں شریف مکہ اور ابنِ سعود کے مابین اقتدار کی لڑائی پر مسلمانانِ ہند بٹ گئے۔ نکتۂ نزاع مقدس اسلامی مقامات کی توہین تھا۔ اس تنازع میں ظفر علی خان ابن سعود کے کھلے حامی تھے۔ مورخ رئیس احمد جعفری کے مطابق انہیں اس کا بھاری مالی معاوضہ ملا۔ اسی رقم کی تقسیم پر جھگڑے میں مولانا غلام رسول مہر اور مجید سالک نے زمیندار سے الگ ہوکر ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تھا۔

فروری1953ءمیں مولانا ظفر علی کے صاحبزادے اختر علی خان نے حکومت کو معافی نامہ لکھ کردیا۔ جو لوگوں کو خاصا ذلت آمیز لگا۔ جب عوام نے اُن کا گھیراؤ کیا تو انہوں نے مسجد وزیر خان پہنچ کر اُس معافی نامے سے صاف انکار کردیا جس پر اُن کے دستخط موجود تھے۔

اسی موقع پر مشتعل ہجوم نے مسجد وزیرخان میں پولیس انسپکٹر فردوس شاہ کو چھریوں سے ہلاک کرڈالا۔ عوام کو اشتعال دلانے والے ایک اور مجاہد ملت عبدالستار نیازی تھے۔ فوج کا گھیرا تنگ ہوا تو مولانا نے داڑھی مونچھ صاف کی اور ریڑھے پر رکھی دیگ میں بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے قصور کے قریب ریڑھا، دیگ اور مولانا تینوں پکڑے گئے۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز میں یہ خبر مولانا کی باریش اور صفا چٹ تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔

سنہ 1989 میں سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے کوثر نیازی، عبدالستار نیازی، فضل الرحمٰن اور نوابزادہ نصراللہ امریکن سینٹر اسلام آباد پہنچ گئے۔ حالانکہ سلمان رشدی امریکی شہری تھا اور نہ کتاب امریکا سے شائع ہوئی تھی۔ دینی مدارس کے سات غریب طلباء کی لاشوں کا نذرانہ قبول کر کے یہ قائدین ملت گھر لوٹ گئے۔

1990 کی جنگِ خلیج میں اسلم بیگ سے حبیب جالب تک، صدام حسین کی شان میں کیسا کیسا مجاہدانہ قصیدہ کہا گیا۔ لیکن صدام حسین نے برادرانِ اسلام کی ذرا پرواہ کیے بغیر 28فروری1991 کو اسی طرح ہاتھ کھڑے کر دیے جیسے اتاترک نے مسلمانانِ ہند سے پوچھے بغیر خلافت کی بساط لپیٹ دی تھی۔

کوئی بارہ برس بعد یہی صدام حسین ایسے زیرِ زمین مورچے سے برآمد ہوئے جسے مغربی ذرائع ابلاغ نے چوہے کے بل کا نام دیا تھا۔ غیرمصدقہ روایت کے مطابق عبدالرشید غازی صاحب کے ممدوح ملّا عمر قندھار سے موٹر سائیکل پر فرار ہوئے تھے۔

ایسی پرہیزگار، پُرفتوح ہستیوں کے تذکرے میں بندگانِ دُنیا کا ذکر بے محل سہی مگر کیا حرج ہے اگر یاد کرلیا جائے کہ رند مشرب ذوالفقار علی بھٹو نے فوجی جبروت کے سامنے گردن جھکانے کی بجائے جان دے دی تھی۔اکبر بگتی کی شخصیت اور کردار پر تاریخ فیصلہ دے گی مگر اُن کی موت ایسا پرانا واقعہ نہیں جسے دہرانے کی ضرورت ہو۔ حسن ناصر ناز و نعم میں پلا نوجوان تھا، قلعہ لاہور کے جلاد صفت پولیس افسر تک اُس کی عزیمت اور حوصلے کو احترام سے یاد کرتے تھے۔ نذیر عباسی عقوبت گاہ میں بدترین اذیتیں جھیلتے ہوئے جوگیت گاتا تھا وہ کراچی جیل کے اہل کاروں کو اب بھی یاد ہیں۔

ایسے ہی راندۂ درگاہ، رندانِ جہاں میں فیض احمد فیض بھی تھا جس کی گرفتاری کے احکام پاکستان کی ہر نئی حکومت انتقال اقتدار کی دستاویز کے ضمیمے میں وصول کرتی تھی۔ اسی فیض نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا:

ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیمِ زُہد کرلے

سوئے حرم چلا ہے انبوہ بادہ خواراں

https://www.bbc.com/urdu/miscellaneous/story/2007/07/printable/070707_wajahat_column_sen.shtml


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).