مئی کا مہینہ، بن لادن اورسید احمد شہید کی برسی


مسلمانوں نے دنیا کے تمام دوسرے مذاہب کے برعکس اپنی پہچان کے لئے امہ کی ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی۔ امہ یا امت مسلمہ کا مطلب مومنین پر مشتمل ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں مذہب اور سیاست ایک ہی چیز تھی۔ قرون اولی ٰ سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے زوال تک کے مسلمانوں کی دیگر شعبہ جات میں کامیابیاں بھی اس ایک لفظ میں سموئی جا تی ہیں۔ اس لفظ کی وسعت میں مسلمانوں کا ماضی اور مستقبل آتا ہے۔ مسلم امہ کا نام زمان و مکاں سے بالا تر کہلاتا ہے۔ اس میں حکمران اور علماء ہی شامل نہیں بلکہ عام مسلمان اس کا سب سے اہم جزو ہیں۔

اسلام کوئی جامد نظام نہیں تھا بلکہ داعی نقلاب ﷺاور خلائے راشدین نے گزرتے وقتوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لئے ایک متحرک اور ترقی پسند نظام حکومت کی بنیادیں استوار کی تھیں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیامسلمان حکمرانوں اور علماء کو اپنے دور کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوے قوانین میں مناسب تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ شرعی نظام میں موافقت کی وسیع گنجائش تھی۔ اورہر حکومت کو اپنے لئے شریعت سے کوئی نہ کوئی مدد مل جاتی تھی۔

مسلم حکومت جب زوال پذیر ہوئی تو یہ زوال بھی ہمہ جہت تھا۔ ٹھیک اسی وقت یورپ میں تحریک احیائے علوم شروع ہو چکی تھی اور مغربی دنیاخواب غفلت سے بیدار ہو رہی تھی۔ اس دوران زندگی اور اس کے متعلقات کے حوالے سے آزادانہ غور وفکر کے رجحانات کا جنم ہوا۔ صنعتی انقلاب سے پیدا ہونے والے معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے نئے علوم اور نظریات پیش ہوے اور معاشرہ ان کے مطابق ڈھلتا چلا گیا۔ یورپ نے جدید علوم اور طاقت کے ساتھ اپنے پاؤں بر اعظم سے باہر بھی پھیلانا شروع کر دیے۔ سامراجیت اور جنگ عظیم کے نتیجے میں مغربی سوچ اسلامی دنیا اور خصوصی طور پر مشرق وسطیٰ میں داخل ہوئی۔

دنیا میں مسلم امہ کا تصو ر بھی خلافت عثمانیہ کے تنزل اور مغرب کی بالا دستی کے بعد ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوا۔ زوال پذیر عثمانی خلافت نے مغربی فوجی ماڈلز کو پہلے ہی اپنانا شروع کردیا تھا۔ جب یورپ کا غلبہ ہوا تومغربی معاشی نظام بھی ان علاقوں میں جاری ہوگیا۔ مغربی عدل کے نظام نے بھی شرعی نظام کی جگہ لے لی۔ لیکن مغربی طرز کے دستور، آئینی حدود اورآئینی اداروں نے جب ان حکومتوں کی جگہ لی توحکمرانوں اور عوام کے درمیان ہمیشہ سے موجود فاصلہ بڑھنا شروع ہو گیا۔ کالونیوں کا دور ختم ہوا تو مسلمان ہر لحاظ سے مغرب سے بہت پیچھے تھے۔ مذہبی اور سیاسی انحطاط کے اس دور نے مسلمانوں میں مختلف قسم کے نظاموں اورنئی مملکتوں کو جنم دیا۔

مسلمانوں کے زوال کے اس دور میں مغربی دنیا کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف اسلامی مفکرین نے دین کے احیاء کے لئے نئے نظریات پیش کیے۔ جمال الدین افغانی، سر سید احمد خان اور مصری محمدعبدہ نے انیسویں صدی میں اسلام کو مغربی دنیا کے جدید معاشی اور سیاسی نظریات کے موافق کرنے کے لئے نئے تصورات پیش کیے۔ ان کی یہ کوشش اسلام کو بنیادی عقائد کی حدود میں رہتے ہوے نئے پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنانا تھا۔

اسلام کو جدید مشکلات سے نجات دلانے کے لئے ان مفکرین کی نئی سیاسی، مذہبی اور معاشرتی تبدیلیوں کی حمایت سے جہاں مسلمانوں کو فائدہ ملا وہاں ایک نقصان یہ ہوا اس نے کہ مسلمانوں کو نہ چاہتے ہوے بھی ایک نظریاتی مرکز مسلم امہ سے دور کردیا۔ اب اسلامی دور کی مثالیں پیچھے چلی گئیں اور مسلمانوں میں ترقی کا معیار مغربی نظام بن گئے۔

اس طرح سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ابھرنے والی نئی اسلامی مملکتوں کا جدید ترقیاتی دنیا کا لبادہ ان کے ماضی سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ نئی حکومتیں تین قسم کی تھیں۔ بادشاہت، آمریت اور کم تر درجہ کی جمہوریتیں۔ ان میں سے کوئی بھی روایتی اسلامی ماڈل اور شریعت کے قانون کے مطابق نہ تھی۔ تمام کی تما م مغربی دنیا کے اصولوں کی پیروری میں بنائی گئیں۔ اب مسلم امہ کا روایتی مرکزی نقطہ بھی متاثر ہو چکا تھا اور مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں مسائل، پیداواری ذرائع، مقامی سیاسی اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے موافقت نہ صرف کم ہوتی گئی بلکہ بعض ممالک میں اختلافات بڑھ کر جنگوں کی شکل اختیار کر گئے۔ مسلم امہ بکھر گئی اور قومیتوں کوفوقیت ملنا شروع ہوگئی۔ حکمران، علماء اور عوام کے راستے مختلف ہو گئے۔

اسلام کی اس عدم مرکزیت سے ایک اور طرح کی طاقتور میراث کا جنم ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ان تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔

اسلام کی جدید مغربی دنیا کی طرز پر تبدیلیوں اور حکومتوں کی اندھا دھند پیروری کے خلاف مسلمانوں میں اسلام کے نام پر مہمات کا شروع ہوئیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات ایمان، عبادات، تقویٰ، راست گوئی، انسانیت کی بھلائی، تزکیہ نفس اور حقوق العبادکی اہمیت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی۔ ان نئی قسم کی حکومتوں کو غیر اسلامی اور غیرمذاہب کی پروردہ قرار دے کر ان کے خلاف جدوجہد کو عین مذہبی فریضہ قرار دیا گیا۔

اس سے اسلام ازم کا آغاز ہوا جس میں سیاست کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی۔ اسلامی تحریکوں نے سخت قسم کا موقف اختیا رکرلیا۔ اب اس بات کی اہمیت ختم ہو گئی کہ کون کیسا مسلمان ہے۔ اخلاقیات کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ انسان کے کردار سازی پر توجہ ختم ہو گئی اور اسلامی فقہ میں موجود ریاستی ذمہ داریوں کو نکال نکال کر افراد پر لازم قرار دیا جانے لگا کہ یہ مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑے اور اہم فرائض ہیں۔ ہر جائز ناجائز طریقہ سے حکومت پر قبضہ اہمیت اختیار کرتا گیا۔

اسلامی سیاسی پارٹیوں کی بنیاد رکھی گئی لیکن یہ تمام اپنے اپنے ممالک میں کوئی واضح کامیابیاں حاصل نہ کر سکیں۔ مصر، ترکی، الجزائر، تیونس مراکش اور پاکستان میں ان کو ہر سطح پر بری طرح ناکامی ہوئی۔ صرف ایران میں مذہبی پارٹی کو کامیابی ملی لیکن اس نے اسلام کی آفاقیت کی بجاے فرقہ کے انقلاب کو برآمد کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ اس سے ارد گرد کے تمام ممالک میں فرقہ ورائیت کو ہوا ملی۔ آمرانہ طرز حکومت، غربت میں اضافہ، تعلیم کی کمی، حکومتی حلقوں میں بڑھتی ہوئی بد انتظامی، کرپشن، فرقہ ورائیت، مذہبی سیاسی پارٹیوں کی سیاست میں ناکامی سے جہادی تنظیموں کوپنپنے کا موقع مل گیا۔

عرب اسرائیل، ایران عراق اورخلیجی جنگوں میں مسلمانوں کی ناکامیاں اس آگ کو بڑھکانے میں اور زیادہ ممد ثابت ہوئیں۔

انڈیا میں یہ تما م تبدیلیاں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد شروع ہو گئی تھیں۔ انگریز وں، مرہٹوں اور سکھوں کی یلغار کے سامنے مسلمان حکمران ریت کی دیوار ثابت ہوے تھے۔

سید احمد شہید نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے پر جہاد کا آغاز کیا۔ اپنے علاقہ سے ہجرت کر کے پشاور اور بالا کوٹ میں خلافت قائم کی۔ ناکام ہوے۔ (مراد دنیاوی ناکامی ہے۔ اس مضمون میں جن بزرگوں کا ذکر ہے ان کی دینی خدمات اور عظمت قابل ستائش ہے ) ۔ افغان جنگ کے بعدملا عمر نے افغانستان میں خلافت قائم کی۔ اسامہ بن لادن اور مصر کے ایمن الزواہری ان کی مدد کو آے۔ بری طرح ناکام ہوے۔ عراق جنگ اور شام میں بغاوت کے بعد ابو بکر البغدادی نے بھی خلافت کا اعلان کیا۔ ان کے مقدر میں بھی بد ترین ناکامی لکھی گئی۔ خلافت کی ان حکومتوں کے ساتھ دوسری مذہبی سیاسی پارٹیا ں بھی تمام ممالک میں بری طرح ناکام ہوئیں۔

مصرمیں اخوان المسلمون کی حکومت کے دوران تمام ملک میں مسلسل خانہ جنگی جاری رہی۔ اور وہ ایک سالہ تباہ کن حکومت کے بعد فوجی بغاوت کے نتیجے میں دوبارہ زیر عتاب آ گئی۔ عراق، شام اور یمن میں اسلامی حکومتیں جمہوریت کی بحالی میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کر سکیں اور انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئیں۔ مراکش، اردن اور کویت کی پارٹیاں بادشاہوں کے زیراثرپارلیمنٹ میں اکثریت تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں، لیکن طاقتوربادشاہوں کی موجودگی میں انتظامی معاملات میں کمتر اختیار کی وجہ سے خاطر خواہ عوامی بھلائی کے منصوبے لاگو نہ کرسکیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کبھی بھی عوام کی حمایت حاصل نہ کر سکی۔

خلافت جو تیرہ صدیوں تک کسی نہ کسی شکل میں مسلمانوں میں موجود رہی آخر کیوں نا کام ہو رہی ہے۔ اور ہر ناکامی کے بعد مسلمانوں کے مصائب میں اور اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ کیا اسلام کا مطمع نظر حکومت تھا یا کچھ اور؟ کیا خلافت ہی انسانوں کی خدمت کرنے کا طریقہ ہے؟ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟

”تغیر احکام، بتغیرالزماں“ فقہ کا بنیادی اصول ہے۔ تما م احکام حالات سے مشروط ہوتے ہیں۔ ہر حکم کی ایک علت ہوتی ہے۔ زمانہ، حالات اورضروریات بدل جانے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ منسوخ آیات اس کی بہترین مثال ہیں۔ زکواۃ اور عشر کے قوانین حکومت سے مشروط ہیں۔ قتال کا حکم ریاست ہی جاری کر سکتی ہے۔ سزاوں کا نفاذ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایمان، صلواۃ، کردار، تقویٰ، احسان، تزکیہ نفس اسلام کے بنیادی نکات ہیں۔ ان پر سچے دل سے عمل کے بعد حکومت اللہ کی طرف عطا ہوتی ہے۔ اور یہی سب سے اہم بات ہے کہ حکومت انعام ہے جو اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کی یہ رحمت اس کے احکامات پر عمل کرنے سے مشروط ہے۔

خلافت وہاں قائم ہوتی ہے جہاں عمل صالح کاوجود ہو، جہاں خوف خدا ہو۔ ”میں اسلامی حکومت کا قیام اس وقت تک نہیں چاہتا جب تک چنگی محرر کا دل بھی خوف خداسے کانپ نہ رہا ہو۔ سید مودودی“۔ حدود، جہاداور قتال کے احکامات کا نفاذ اس کے بعدآتاہے۔ تمام مذہبی سیاسی پارٹیوں اور خلافت کا اعلان کرنے والے افراد نے ترتیب کو بھول گئے۔ جہادبالسیف پہلے فرض کردیا۔ اور اس کا اعلان بھی مختلف واقعات کے رد عمل میں کیا گیا۔ اس کی کوئی مناسب تیاری بھی نہیں کی۔ اللہ کے احکامات کی یہ غیر فطری تشریح اور نفاذ خاص وقت تک تو مخصوص لوگوں کے جذبات پر اثر اندازہوتا ہے لیکن کچھ دیر کے بعداس رد عمل کا ٹھکانا ماضی کا مزارہوتا ہے۔

اگرمسلمانوں نے اتنے ناکام تجربات کے بعد بھی ماورائے زمان و مکاں فیصلے جاری رکھے تو نتیجہ پھر وہی ہوگا، ”کنہار میں بہا دیے جائیں گے یا سمندربرد ہو جائیں گے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).