یوم مزدور کی چھٹی یا یوم فاقہ


1 مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے، جلسے جلوس ہوتے ہیں مزدوروں سے صرف زبانی ہمدردی جتائی جاتی ہیں۔ دراصل اس دن کا مقصد مزدوروں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا انہیں ان کی محنت کے مطابق مزدوری ملنے کا حق دلانا، انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لئے انصاف کا مطالبہ حکومت سے کرنا ہے۔ ہر کوئی مزدور ہی ہے کوئی سرکاری اداروں میں ہے تو کوئی روز کی کمائی کرتا ہے، کسی کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے کسی کو کم۔ لیکن اصل مزدور تو وہ لوگ ہے جو محنت و مشقت کرتے ہیں مشکل کام ان سے لیے جاتے ہیں، انہیں ان کی محنت کے مطابق اجرت ملنی چاہیے۔ اور محنت کی عظمت و رفعت کیا ہے اس سے لوگوں کو آشنا کرانا ہے ان محنت کشوں کی محنت کو سراہانا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے۔ تاکہ انسان ایک دوسرے سے اپنے کام نکال سکیں کسی کو دولت دی، کسی کو طاقت و توانائی دی، کسی کو جرأت و بہادری عطا فرمائیں، کسی غریب بنایا، کسی کو امیر، ان سب سے کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مصلحت کارفرما ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سبھی انسانوں کو برابر بناتا اور سبھی کو دولت سے نواز دیتا تو پھر چھوٹے کام کاج، مشکل اور محنت کے کام کون کرتا! ہر کوئی یہ کہتا میں مالدار ہوں سیٹھ ہوں امیر ہوں، میں یہ چھوٹے کام کاج کیوں کروں، نا کھیتی میں کام کرنے مزدور ملتے نہ گھر کی تعمیر کرنے والے محنت کش طبقہ ملتا، اور مشکل حالات میں سردی، بارش، دھوپ میں چھوٹی چھوٹی لیکن اہم ضروریات زندگی کی کمی کو کون پورا کرتا؟ سردی کے موسم میں گرم انڈوں کو امیروں کے گھروں کے دروازوں پر کون پہنچانے والا ہوتا، مسلادھار بارش میں گرم چائے کی چاہت پورا کرنے کے لئے د

اتنی بارش میں کون دودھ لیے کر آتا؟ کڑی دھوپ میں جو جسم سے پانی کو چوس لیتی ہے، کون ٹھنڈے مشروبات کی دوکانیں کھول کر جسم کو راحت پہنچانے کا ذریعہ بنتا؟ گھروں کی تعمیر میں کون گڑھے کھودنے تیار ہوتا۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ مختلف درجات انسانوں کے بنا دیے کوئی غریب کوئی وسط درجے کا کوئی فقیر، کوئی بڑا پیسہ والا مالدار، کوئی زمیندار، کوئی کمپنیوں کا مالک، کوئی اس سے کم درجے کا، کوئی ریڑھی لگانے والا، اسی لیے دنیا کا نظام چل رہا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ نظام کو چلارہا ہے۔ ورنہ دنیا ختم ہوجاتی۔ انہیں مزدور افراد کی وجہ سے امیر طبقہ ان سے مشکل کام لیتا ہے۔ اور اپنے کام نکالتے ہیں۔ یہ وہ مزددر ہوتے ہیں۔ جنہیں کل کی فکر نہیں ہوتی یہ اس چڑیاں کی طرح صبح گھر سے نکلتے ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتی ہے اور رات کو بھرے پیٹ گھر لوٹتی ہے۔ روز کی کمائی کرنے والے جن کی کوئی جمع پونجی نہیں ہوتی ہیں۔ سو دو سو روپے روزانہ کما کر پورا گھر چلاتے ہیں، ایک دن اگر کام کی چھٹی لی تو گھر میں فاقے کی نوبت آجاتی ہے۔

وہی دوسری طرف امیر مالدار طبقہ ہے جن کے گھروں میں پیسوں کی ریل پیل ہوتی ہے پانی کی طرح دن نکلتے ہی پیسہ خرچ کیا جاتا ہے عیاشیوں میں برتھ ڈے پارٹیوں میں شادیوں میں بے حساب پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اور مزدور کو مزدوری دینے میں کنجوسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ”مزدور کا پسینہ خشک ہونے پہلے اس کی مزدوری دے دو“

مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ ”اے ملا! مزدور کے ہاتھوں کے چھالے تمہاری پیشانی پر پڑیں نشان سے زیادہ مقدس ہیں ’

یوم مزدور کے روز تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر کو تعطیل دی جاتی ہے ہزاروں لاکھوں روپیے ان مزدوری کی مشقت سے حاصل کرنے والے افراد چھٹی کو انجوائے کرتے ہیں اور اصل مزدور آج کے دن بھی کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ کام نہیں کرینگا تو گھر میں بچوں کو کیا جواب دینگا۔

اگر یوم مزدور کو منانا ہی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ کم از کم ایک مہینے کی امداد ان مزدوروں کی کریں جو سال بھر حکومت سے کسی مطالبہ کے بغیر خود کام ڈھونڈتے ہیں خود اپنی روزی روٹی کمانے نکلتے ہیں۔ ہندوستان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جس میں سب سے زیادہ مزدوری کرنے والے مسلمان ہے۔ جو سرکاری نوکریوں سے محروم ہے روز کی کمائی پر گزر بسر ہو تا ہے۔ حکومت کو ان کی فکر لاحق نہیں ہوتی!

اگر حقیقت میں یوم مزدور منانا چاہتے ہیں تو ان مزدوروں کی زمینی سطح پر اتر کر مدد کیجئے ان کی مالی امداد کیجئے۔ ان کی محنت کے مطابق ان کو اجرت دیجیے۔ ان کو اجرت دینے میں ٹال مٹول نہ کریں کیا پتہ بچے ان کے انتظار میں بھوک سے نڈھال ہوکر خالی پیٹ سوجائیں۔ اس لیے پڑوسی کا بھی حق اسلام نے دیا ہے۔ ”آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتا ہے اس حال میں کہ اس کا پڑوسی بھوکا رہے“

اس لیے مزدوروں کے حقوق ادا کرنا ہی اصل یوم مزدور ہے۔

سوجاتا ہے فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).