مسئلہ سمت ہے، رفتار نہیں ہے مرے دوست


کشمیر میں ادب کا باب نیل مت پران سے ستی سر کی اساطیری روایت سے کھلتا ہے۔ ادب کو اساطیر سے نکالنے کے پہلی کاوش ایک کشمیری شاعر دامودر گپت نے آٹھویں صدی میں ”نٹنی مَتَم“ سے کی۔ مغل دور میں کشمیرنے تہذیبی عروج کو جا لیا۔ کشمیر کو پرشکوہ بنانے میں ایک مغل گورنر ظفر خان احسن پیش پیش تھا۔ اس نے کشمیر کو چنپا، گلاب، چیری کے ساتھ ساتھ مشاعرے سے متعارف کرایا۔ اس نے ہم عصروں کا انتخاب احسن الحکایات کے نام سے مرتب کیا۔ اس کی تعمیرات میں کھوئی رٹہ کا قلعہ کرجائی بھی ہے۔ ظفر خان احسن کی یاد مسعود ساگر کی تازہ کتاب ورا کی آمد کی خبر سن کر آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ساگر کے پیکر میں احسن سخن زارِ کشمیر کی آبیاری کے لیے ”کھوئی رٹہ“ میں پھر سے جلوہ گر ہو گیا ہے۔

لائن آف کنٹرول کے قریب واقع یہ شہر جہاں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گولوں کی دھمک معمول ہے مسعود ساگر نے اسے شہرِ سخن بنا دیا۔ مشاعرے، شعرا کے اعزاز میں شامیں اورنشستیں، گل پاشیاں، اعزازیے، کشمیری شالیں، پرتکلف ضیافتیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھوئی رٹہ اردو دنیا میں نگینے کے طرح جھلملانے لگا۔

مسعود کا تخلص ہی ساگر نہیں وہ کشادہ ظرف بھی ہے۔ قامت کی طرح اس کا کردار بھی نکلا ہوا ہے۔ دھیمے مزاج کے باعث رفتار کے ساتھ سمت بھی درست رکھی ہوئی ہے۔ اس لیے اس کی ہر بزم پر انوار ہوتی ہے۔ ورنہ اتنے دور افتادہ، جنگ زدہ اور پتھریلے علاقے میں سخن کا نہال کم کم ہی پروان چڑھتا ہے۔

مسعود ساگر چراغ حسن حسرت کالج کھوئی رٹہ میں اردو کے استاد ہیں۔ اس لیے اعلی اخلاقی اقدار کی امینی ان کا فرضِ منصبی ہے۔ ان قدروں کی پامالی بڑے قرینے اور درد کے ساتھ ورا میں جا بجا پیش کیا گیا ہے

آپ کی بیٹی نہیں آپ نہیں سمجھیں گے۔ خالی جاتی ہوئی واپس کسی بارات کا دکھ

تم امن، چین، پیار، اخوت پڑھاؤ نا۔ کیا فرقہ فرقہ روز پڑھاتے ہو حد ہے یار

جنت نظیر کشمیر سالہا سال سے دیوتاؤں کی جارحیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ گزشتہ ستر سال سے معصوموں کی شہ رگیں کٹ رہی ہیں اور انگ علاحدہ ہو رہے ہیں۔ جو وادیاں پھولوں سے مہکی اورخوشبوؤں میں لپٹی ہوئی تھیں ان میں ستر سال سے بارود کی باس بھری ہوئی ہے۔ اس کا درد ”ورا“ میں جگہ جگہ بکھرا ہوا ہے

مرا خوشی سے سرِ دست کوئی رشتہ نہیں۔ میں درد ہوں مری نسبت چنار ہے شاید

مجھ سے چھینی ہے مہک بھیگی ہوئی مٹی کی۔ پکے آنگن نے دیا ہے مجھے برسات کا دکھ

بعض حالات میں سایہ بھی کچھ ایسے کاٹے۔ جیسے صحرا میں کڑی دھوپ بدن کاٹتی ہے

میں ہوں کشمیر اور تقسیم در تقسیم۔ مرا مجھ سے کبھی الحاق تو ہو گا

مسئلہ صرف جارح دیوتاؤں کی رسہ کشی کا نہیں۔ دیگر مافیاؤں، کباڑیوں اور فکر فروشوں میں گھری زندگی کے تضادات کو مسعود ساگر نے خوبصورتی سے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے

اتنا اونچا جو بولتا ہے تو۔ یعنی اندر سے کھوکھلا ہے تو

جنگ کی کرتا ہے حمایت بھی۔ اور کبوتر بھی پالتا ہے تو

فکر کے اس کباڑ خانے میں۔ کیوں نئی بات سوچتا ہے تو

حد ہوتی ہے بدلنے کی۔ کتنی ڈگری کا زاویہ ہے تو

تہذیبی یتیمی کے اس دور میں تہذیبی شائستگی کے اس پیکر کو ان کے نئے شعری مجموعے کی آمد مبارک ہو۔ ان کے پہلے شعری مجموعوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ”ورا“ تک پہنچے پہنچے انہوں نے کافی سفر طے کر لیا ہے۔ انشا اللہ اس سے آگے کا سفر اور زیادہ رواں اور دلنشین ہو گا۔ ”ورا“ سے یہ منتخب اشعار دیکھئے

جب ترے پاس ایک جنگل تھا۔ تب مرے پاس ایک تیلی تھی

اچھا ہوا کہ تو مری تقدیر میں نہیں۔ جو خواب میں کشش ہے وہ تعبیر میں نہیں

تیرے ملنے سے پیشتر، افسوس! ۔ زندگی جینے والی جی لی تھی

ایک خط کا ہوں منتظر کب سے۔ میں بھی دریائے نیل ہوں صاحب

گاڑ دیتے ہیں لوگ سینے میں۔ لفظ بھی جیسے کیل ہوں صاحب

لاکھ قالین بھلے مسجدِ نبوی کے مگر۔ دل کھجوروں کی بچھی چھال میں کھو جاتا ہے

میں ٹریفک کی کسی بھیڑ میں پھنس جاتا ہوں۔ سو میرا رزق بھی ہڑتال میں کھو جاتا ہے

گاڑی جیسے ہی مڑے دھان گلی کے اس پار۔ تیرا شاعر ترے ڈڈھیال میں کھو جاتا ہے

اس بھیک مانگتے ہوئے بچے کے کاسے میں۔ کاغذ، قلم، کتاب، کھلونے، دوات ڈال

اے دوست تجھ کو تیری مبارک برہمنی۔ ہم اہلِ عشق ہیں، ہمیں نہ چھوت چھات ڈال

شب زاد! شر میں خیر کے پہلو بھی دیکھ اور۔ لے تیرگی کا سوت نئی صبح کات ڈال

مسئلہ سمت ہے، رفتار نہیں ہے مرے دوست۔ پنکھا الٹا جو چلے چھت کو ہوا دیتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).