کم عمری کی شادیاں کیوں؟


کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے لائے گئے بل پر بحث جاری ہے حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے کہ پارلیمنٹ انسانی مفاد میں کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے شادی کا تعلق رضا مندی اور بلوغت سے ہے مان لیتے ہیں کہ بلوغت مختلف خطوں یا مختلف لوگوں میں مختلف اوقات میں ہو سکتی ہے لیکن جب ہم نے قومی سطح پر بلوغت کی عمر یونیورسل اصول کی مطابقت میں اٹھارہ سال مقرر کر رکھی ہے تو لڑکے یا لڑکی کی شادی کا پیمانہ بھی اسی کو کیوں نہ بنایا جائے۔

عربوں میں اگر پہلے ہو جاتی تھی یا ہو جاتی ہے تو لازم نہیں کہ ہم عرب کلچر کو ہو بہو کاپی کریں۔ جب میڈیکلی یہ چیز ثابت ہے کہ کچی عمر کی شادیاں کئی جسمانی عوارض یا پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہیں تو پھر اس پر اصرار کیوں کیا جائے؟ مسئلہ محض جسمانی بلوغت کا نہیں ہے بالخصوص بچیوں کے معاملے میں ذہنی و شعوری بلوغت کی پختگی کا بھی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں جب مائیں بنتی ہیں تو یہ بڑی تکلیف دہ کیفیت ہوتی ہے وہ بچیاں ابھی خود سنبھالے جانے کے قابل ہوتی ہیں چہ جائیکہ وہ آگے اپنی بچیوں یا بچوں کو سنبھال رہی ہوں۔ 18 سال بھی کوئی بہت زیادہ عمر تو نہیں ہے کہ اس حد تک بھی صبر نہ کیا جائے۔

جو لوگ اس ایشو کو مذہب سے جوڑتے ہیں اور طرح طرح کی روایات لا رہے ہوتے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ درویش بھی ریٹائرڈ مولوی کی حیثیت سے بڑی بڑی روایات لا سکتا ہے مگر یہ کہ اس نزع یا بحث میں نہ ہی پڑا جائے تو بہتر ہے۔ اس بحث میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا آپ 20 برس کی عمر میں ایک ایسی 35  سالہ بیوہ سے شادی کرنا پسند فرمائیں گے جو دو خاوند دیکھ چکی ہو اور جس کے پانچ بچے بھی ہوں۔ اس نوع کے بیسیوں سوالات اٹھیں گے اور بات بہت دور چلی جائے گی۔

سیدھی سی بات ہے کہ شادی ایک عقد یا کنٹریکٹ ہے اور معاہدہ دو بالغ فریقین میں ہی ہوتا ہے اور دونوں کی باہمی رضا مندی سے ہی قائم بھی رہ سکتا ہے اگر کوئی ایک فریق اسے ختم چاہے تو طے شدہ شرائط کے مطابق اسے ختم بھی سکتا ہے بلوغت کی جو عمر ہمارے ملکی قانون میں طے ہے اس ایشو پر بھی اس کی پابندی لازم ہے۔ اسے خواہ مخواہ ایک مذہبی رنگ دینا یا یا سیاست سے جوڑتے ہوئے اس نوع کے بیانات جاری کرنا کہ میں وزارت چھوڑ دوں گا یہ نہیں ہونے دوں گا ایک قطعی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔

اگرآپ روایتی ضوابط کے اتنے بڑے علمبردار ہیں تو پھر دیکھیں کہ پہلی بی بی کی اجازت کے بغیر چار چار بیبیاں بسانے کے مسائل اور مثالیں بھی موجود ہیں کیا انہیں اپنانے کے لیے بھی اسی نوع کی بحثیں اٹھائیں گے؟ بہتر ہے ان تنگناؤں میں الجھنے سے اجتناب کیا جائے۔ جہاں تک کسی غیر منتخب شخص یا ادارے سے رہنمائی لینے کا سوال ہے یہ بھی خواہ مخواہ کا ایک غیر ضروری فیشن بن گیا ہے۔

منتخب پارلیمنٹ پر کسی بھی غیر منتخب ادارے کی اجارہ داری نہیں اورنہ ہی ممبران پارلیمنٹ مخصوص آراء ماننے کے پابند ہیں وہ شخصی تفہیم یا عوامی مفاد میں کسی بھی پڑھے لکھے یا قابل شخص سے رائے لیتے ہوئے اپنی تسلی کر سکتے ہیں مگر فیصلہ انہیں بہر صورت وسیع تر عوامی یا قومی مفاد میں کرنا ہوتا ہے۔ درویش کی نظر میں تو نظریاتی کونسل جیسے نان ایشوز میں الجھانے والے ادارے فی زمانہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اور قومی معیشت پر غیر ضروری بوجھ ہیں حکومتی پارٹی کو چاہیے تھا کہ یہ ایشو پہلے اپنی پارلیمان پارٹی کے اجلاس میں طے کر کے آگے لاتے کیونکہ سینٹ تو پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی ہے۔

خاتون وفاقی وزیر کا یہ موقف قابلِ فہم ہے کہ کئی قدیمی اسلامی ممالک جیسے ترکی اور مصر میں شادی کے لیے عمر کی اٹھارہ سالہ حد پہلے سے موجود ہے اور مصر ی مسلمانوں نے تو باقاعدہ الازہر یونیورسٹی کے ماہرین کی مشاورت سے یہ قانون تشکیل دے رکھا ہے جبکہ ترکی ایک جمہوری اسلامی ملک ہے اور ان کی منتخب پارلیمنٹ نے عوامی مفادمیں یہ قانون سازی کر رکھی ہے۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارا مذہب کوئی جامد مذہب نہیں ہے اس کا نظریہ اجتہاد بہت مضبوط اور وسیع تر ہے۔

اگر قوانین اور معاشرت کا علمی و فکری بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو ہم چودہ صدیوں میں ان گنت تغیرات سے گزرے ہیں۔ ابتدائی ادوار میں فقہی طور پر اس نوع کے تقاضے بھی مسلمہ حقائق خیال کیے جاتے رہے کہ حکمران ہونے کے لیے قریشی کی شرط لازم ہے۔ جمہوریت کے بالمقابل بادشاہتوں کی حمایت میں شرعی دلائل بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف تو ابھی کل تک دھواں دار تقاریر ہوتی رہیں لیکن وقت کے ساتھ مسلم سوادِ اعظم شعوری طور پر آگے بڑھتا رہا اور آج تمام تر اجتہادی فیصلے اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ روایتی الذہن لوگ بھی ان کی مخالفت کا یارا نہیں رکھتے ہیں۔

روایتی اپروچ کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اس نوع کے مسائل و معاملات میں نظریہ استحسان اور مصالح مرسلہ کو پیش نظر رکھیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جتنی زور آزمائی کم عمری کی شادی پر کر رہے ہیں اتنا زور جبری شادیوں کے خلاف دیں۔ ماڈرن جمہوری اقوام میں تو بوجوہ شادی کا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ جبری شادی تو ایک نوع کا ریپ ہوتی ہے مگر افسوس یہاں پسند کی شادی پر اٹھنے والی غیرت قتل و غارت تک لے جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).