تحریک لبیک کی ناز برداری سے ڈنڈا برداری تک


ناموسِ رسالت کے علم برداروں کو جب لفافہ برداروں نے نازبرداری کا مستحق سمجھا تھا تو ہم جیسے نادانوں اور دیوانوں نے ریاست کے کارپردازوں کے سامنے جان کی امان طلب کرتے ہوئے عرض کی تھی کہ ان کی یہ عنایت خسروانہ اور اسلوب شاہانہ کل ان کے گلے پڑ جائے گا۔ مگر شیر انڈے دے یا بچے، ہم آپ اس کی فیصلہ سازی پر حرف گیری کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ تب معتوب، مغضوب اور غدارِ وطن کی کرپٹ حکومت کا راج تھا، سو مجاہدین ختم نبوت کے لشکر کی دستگیری ضروری تھی۔

مگر جب لاڈلوں کے لاڈلوں کا دور آیا تو دستگیری کا سخت گیری میں بدلنا ضروری تھا۔ پیر افضل قادری چھ ماہ کی ریاستی خدمت گزاری اور مہمان نوازی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ پیرِ کامل بن کر عقوبت خانے سے نکلے۔ ناز بردار و لفافہ بردار جب ڈنڈا بردار بن کر سر پر کھڑے ہوئے تو پیر صاحب نے فرمانبردار مرید بن کر معافی نامہ لکھا اور مولانا ظفر علی خاں، عبدالستار نیازی، مولانا عبدالعزیز اور صوفی محمد وغیرہ کی سنت کا احیاہ کیا۔ معافی ہر غلطی کی تلافی نہ سہی عالم پیری میں پیر صاحب کی جاں بخشی کے لیے کافی ہے۔

پیرصاحب کے پیچھے علامہ خادم رضوی (حلال گالیوں والے ) تیار بیٹھے ہیں کیونکہ دین و وطن کے ٹھیکیداروں نے ان سے جو خدمت لینا تھی وہ لے چکے ہیں۔ انہیں بھی بعد از خرابی بسیار ہوش کے ناخن لینا آتے ہیں۔ بہت جلد موصوف بھی ایسے مقاصد کے لیے جلاؤ گھیراؤ، فتنہ پردازی اور دنگا فساد کی بجائے پر امن طریقے سے اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے صالح اور نافع جدوجہد کرنے کا اعلان فرما کر اور معافی نامہ لکھ کر باہر تشریف لے آئیں گے۔

اگر کوئی کم ظرف اور کمینی خصلت کا مارا ایسے موقع پر انہیں طنز کا نشانہ بنا کر مرزا غالب کا مشہور زمانہ زود پشیمانی والا شعر پڑھ کر انہیں یا ان کے مداحوں کو زچ کرنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔ امید ہے اس دوران اسیران ”ملعونہ“ آسیہ مسیح کا نام بھی بھول گئے ہوں گے اور ختم نبوت کے حلف نامے میں کی گئی ترمیم کے خلاف ان کا جوش و خروش بھی ٹھنڈا پڑ گیا ہوگا۔ تاجدارِ ختم نبوت کی غلامی کا اعلان کرنے والوں کا جاہ و جلال بھی رخصت ہو چکا ہو گا۔

ڈنڈا برداروں نے اپنے ان ”اثاثوں“ کی برین واشنگ کر کے انہیں آنے والے کسی کرپٹ اور لوٹ مار کے عہد کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ جب کبھی نظریہ ضرورت ازسرنو ایجاد ہوگا یہ اثاثے بھی پوری آب و تاب سے میدان عمل میں چھوڑ دیے جائیں گے۔ رہے راولپنڈی والے مجاہد ختم نبوت، تو ان کی جدوجہد بھی ثمر آور ہو گئی ہے۔ اس عظیم جدوجہد کے صلے میں ان کی شاخِ سرسبز پر وزارت کا گلاب کھل چکا ہے۔ فی الحال وہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں سے بڑی عرق ریزی اور جگر کاوی سے عہدہ برا ہو رہے ہیں اس لیے نہ انہیں ”ملعونہ“ آسیہ مسیح کی خبر ہے اور نہ ان کرداروں کی بدکرداری کا ہوش ہے کہ جنہوں نے آئینی ترمیم کے ذریعے اسلام کے قلعے میں شگاف ڈالنے کی مذموم کوشش کی تھی۔

لفافہ برداری سے ڈنڈا برداری تک کا یہ سفر اسیران کی قلبی، باطنی اور روحانی بالیدگی اور ترفع کا باعث بھی بنا ہے۔ راہ سلوک کے ان سالکوں نے شریعت، تصوف، طریقت اور حقیقت کی جانکاری کے حوالے سے ایسی ایسی منزلیں سر کی ہیں، خود شناسی سے خدا شناسی تک کے سفر کے دوران میں چلّہ کشی کی وہ مشق کی ہے کہ سب کے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ ایک نے تو اپنی جدوجہد سے دست بردار ہونے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اب موصوف کسی گوشہء تنہائی میں بیٹھ کر علم و عرفان کی نئی نئی منزلوں کا سراغ لگائیں گے اور خشوع و خضوع سے لہک لہک کر گاتے پھریں گے کہ :ڈنڈا پیر اے بگڑیاں تگڑیاں دا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).