مدارس کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ: چند تجاویز


سماج میں بے پناہ خرابیاں ہیں، خوبیاں بھی بے شمار ہیں مگر خرابیوں نے خوبیوں کا چہرہ بھی داغدار کر دیا ہے۔ غالب تعداد ایک ہی بہاؤ میں بہی جا رہی ہے۔ فکری مغالطے ایسے کہ رہے نام اللہ کا۔ بے شک جدید ریاستی نظام میں اداروں کو فوقیت حاصل ہے، جو حکومتی نظم و نسق برقرار رکھنے میں اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کرتے ہیں۔ آئین و قانون کے کردار بارے ماہرین قانون و آئین کو گاہے گاہے عادلانہ بحث کرنی چاہیے، مگر سماجی نفسیات کے حوالے سے صحافت، سماجیات، تاریخ اور ادب کے طالب علموں کو اپنا نقطہ ہائے نظر برملا بیان کرنا چاہیے۔

ہمارے سماجی میلان میں جو تبدیلی آئی وہ افغانستان کے نام نہاد جہاد کے بعد آئی۔ جب روس نے افغانستان پر افغانوں ہی کی بعض تنظیموں کی دعوت پر چڑھائی کر دی تھی۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر دو عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف سینہ سِپر تھیں۔ تاریخ و سماجیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ انسانی جذبات مذہب کے نام پر بہت بھڑکتے ہیں۔

افغانوں کے داخلی مسئلے کو ہم نے امریکی پشت بانی سے کفر و اسلام کی جنگ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ سعودی عرب اور امریکہ کی ریاستی فنڈنگ سے مدارس کا جال بنا گیا۔ اسامہ بن لادن اسی عہد کی پیداوار ہے۔ کیا ہم تاریخ کے اس سچ سے انکار کر سکتے ہیں؟ زندگی خواہشوں کے سہارے نہیں گزرتی، اس کے لیے عملی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ مذہبی طبقہ، یا اہلِ مدارس سارے کے سارے دہشت گرد نہیں، بے شک اہلِ مدارس نے بہت سا حکومتی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔

یہ مگر ایک پہلو ہے۔ اس میں بھی ریاستی ناکامی ہے۔ حکومتیں ذمہ دار ہوں تو پھر ان کی کروڑوں کی آبادی ”چندوں“ پر نہیں پلتی۔ اس امر میں کلام نہیں کہ مدارس نے بالخصوص افغانستان کے نام نہاد جہاد کے لیے زبردست ذہن سازی کی۔ کم تعلیم یافتہ، کم عمر، اور غریب علاقوں کو بہ طور خاص منتخب کیا گیا، پھر وہاں سے دینی تعلیم کے نام پرنوجوان لڑکوں کو مختلف مدارس میں لا کر، ان کی ذہن سازی کی گئی اور انھیں افغانستان میں ”شہید“ ہونے کے فضائل بتائے گئے۔ ریاستوں کے مفادات اور معاملات ہوتے ہیں۔ شاید اس وقت پاکستان کی یہ ضرورت تھی۔ مگر اب زمینی حقائق کلی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ لیکن اہلِ مدارس اپنے نفع بخش کاروبار پر کسی کو بات تک نہیں کرنے دیتے۔

کیا تکفیر کے فتوے اہلِ مدارس کے ممتاز مفتیان ہی کے نہیں دیے ہوئے؟ نائن الیون کی جنگ کے بعد کیا مذہبی طبقے نے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ نہیں کیا؟ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں میں ایک معروف مدرسے کے فارغ التحصیل قاریوں کا نام نہیں آتا؟ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ مدارس کے چندے اور دیگر صدقات و خیرات کے نام پر ملنی والی رقم کا آڈٹ کبھی ہوا؟ کون کون سا مدرسہ کتنا سالانہ ٹیکس دیتا ہے؟ مدارس اور اہلِ درگاہ، کبھی بھی اپنے مفادات پر بات نہیں کرنے دیتے کہ اسی سے ان کے رزق روزی کا پہیہ گھوم رہا ہے۔

مدارس کی رجسٹریشن کی جب بھی بات ہوتی ہے تو کچھ سیاسی علما فوراً تلوار سونت کر میدان میں چلے آتے ہیں، وہ پھر سے عوامی جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اسے اہلِ مغرب اور آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ حالانکہ ایسا قطعی نہیں۔ ہر شخص کو خواہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی، یا کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہے، اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق تعلیم حاصل کرے۔ لیکن یہ کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر ریاست کو یرغمال بنانے کے لیے فتوے کا ہتھیار استعمال کرے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مذہبی پریشر گروپس بنا کر عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے ججز کے قتل تک کے فتوے دے۔ اہلِ مدارس کا ملکی ترقی اور سماجی رواداری میں کتنا کردار ہے؟ سوائے ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھنے کے؟

گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ”مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کردیا جائے گا، مدارس کو وزارت زراعت سے تعلیم کے ماتحت کرنے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے طلبا کا بھی حق ہے کہ ان کو درس نظامی کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں پر تعلیم دی جائے۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا 1947 میں پاکستان میں مدرسوں کی تعداد 247 تھی، 1980 میں یہ 2 ہزار 8 سو 61 ہوگئی اور اس کے بعد آج تک یہ تعداد 30 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، ان مدرسوں کا ایک نظام چل رہا ہے، جس میں 3 طریقے کے مدرسے ہیں جبکہ ان تمام مدارس میں سے 100 سے بھی کم تشدد کی طرف راغب کرتے ہیں۔

” وہ مدارس جو 100 یا اس سے کم ہیں میری تجویز ہے کہ سب سے پہلے ان سے نمٹ لیا جائے۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد تشدد کی جس لہر نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیا یقیناً بیان کردہ 100 مدارس اس کے اولین ذمہ داروں میں ہیں۔ لامحالہ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جہاں تک مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا تعلق ہے تو میری نظر میں یہ نہایت اچھا اور احسن فیصلہ ہے۔ صرف درسِ نظامی اور اپنے اپنے مسالک یا اپنی اپنی فقہ کی تعلیمات حاصل کرنے والے سماج کے لیے کسی بھی طور سود مند نہیں ہو سکتے، الا کہ وہ اپنے اپنے مسلک اور فقہ کے نمائندے کے طور پر کہیں نہ کہیں اپنے“ فرائض ”سر انجام دیتے رہیں۔

میری تجویز ہے کہ شیعہ سنی، دیوبندی، اہلحدیث، تمام مکاتب فکر کے مدارس میں لازمی قرار دیا جائے کہ فقہ کی پانچوں کتب کی تعلیم متعلقہ فقہ کے ماہرین دیں گے، کمپیوٹر کی تعلیم کمپیوٹر کے ماہرین دیں گے اور ابلاغ کی تعلیم ابلاغ عامہ کے اساتذہ دیں گے۔ مرحلہ وار وزرات تعلیم، تمام مسالک کے مدارس کے طلبا کی درجہ بندی کرے، انھیں پانچوں فقہا کی کتب پڑھائی جائیں، پھر جو انجینئرنگ، میڈیکل یا کسی دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں جانا چاہیں، انھیں اس طرف بھیج دیا جائے۔

یہ کام جذباتیت یا زور سے کرنے کا نہیں بلکہ مرحلہ وار کرنے کا ہے۔ اس میں یونیورسٹینز کے شعبہ اسلامی کے سربراہان، اسلامی نظریاتی کونسل سے محققین کی ایک ٹیم اور اسی طرح دیگر معتدل علما و محققین کی ایک ٹیم بنا کر ان سے تجاویز لی جائیں۔ ان تجاویز کو پارلیمان کے اندر پاس کروایا جائے اور سماج کو رواداری کے راستے پر ڈالنے کے عمل کا آغاز کیا جائے۔ بے شک اس عمل سے اہلِ مدارس کو تکلیف ہو گی کیونکہ جن کا کاروبارِ حیات ہی چندے پر ہے ان کے لیے ریاست کا یہ فیصلہ بہت تکلیف دہ ہو گا۔ مگر ہمیں آج یا کل یہی فیصلہ کرنا ہے اور یہی ریاست اور پاکستانی سماج کے مفاد میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).