خدیجہ مستور کا آنگن: اس ادبی شاہکار کو ٹی وی ڈرامے میں ڈھالنا ایک کارنامہ ہے!


پاکستانی ٹی وی ڈرامے کی سطحی حیثیت کے بارے میں ایک مدت سے سب ہی پڑھے لکھے باشعور حلقوں کو شکایت اور خوب جانکاری ہے اسی لیے پی ٹی وی کے عہد میں جو کچھ مفکرین فن ڈراما دیکھنے کا کشٹ اٹھا لیا کرتے تھے، نجی تاجروں کے ہاتھوں میں آنے کے بعد سے وہ اس ایک جفاکشی سے بھی دست کش ہوئے۔ اور رہ گیا ایسا ڈراما جس کی یکسانیت سے اباسیوں اور جماہیوں کو بھی کاہلی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہر چند کہ اس کے دیکھنے والے بھی لاکھوں میں تو ضرور ہوں گے۔

پھر یوں ہوا کہ ڈرامے کا معیار جانچنے کو ریٹنگ کے میٹر لگ گئے جن کی چابیاں تاجروں کے اپنے ہاتھوں میں ہیں جب جس میٹر کا چاہے تالا کھول ڈالو اور مرضی کی ریٹنگ سامنے ہے۔ اسی ریٹنگ نے طے کرنا شروع کردیا ڈرامے کا معیار بھی اور ڈرامے کی تخلیقی رفتار بھی۔ یہ رفتار کچھ ایسی تیزی سے دوڑی کہ ”تخلیق“ غریب پچھاڑیں کھاتی کہیں کی کہیں رہ گئی اور باقی بچ رہ گیا تو وہ ڈراما جسے لکھنے والے کم لکھتے ہیں اور لکھوانے والے زیادہ لکھواتے ہیں۔

ایسے پرآشوب زمانے میں جب بصیرت اور ذہانت جانے کون سے کوئنوں پر پانی بھرا کرتی ہیں ہم ٹی وی+ مومنہ درید+ مصطفی آفریدی+ احتشام الدین نے اردو ادب کے مایہ ناز ناول آنگن کو ڈرامے کے قالب میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اور ایسے پر خطر دلاآویز راستوں سے یہ سفینہ گزرا۔ وہ بھی معرکے پہ معرکے، جھنڈے پہ جھنڈے گاڑتا ہوا کہ ان سپہ سالاروں کی ہمت و حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے۔ یہ کیا کم بڑی بات ہے کہ ایسے غیر منفعت بخش کام کو سر انجام دینے کے لیے کو ئی کمر کسے، جہاں قدم قدم پہ گھاٹے کی گھاٹیاں اور نقصان کی کھائیاں منھ کھولے کھڑی ہیں۔

مومنہ درید

ریٹنگ کی دیوی ایسی جراتوں پر کم ہی مہر بان ہوتی ہے۔ یقیناً کچھ نہ کچھ مومنہ درید کو پتا ہی تھا کہ وہ اس میدان کی بڑی منجھی ہوئی کھلاڑی اور جانکار ہیں۔ وہ خوب اچھے سے جانتی ہیں کہ موجودہ عہد صرف کاروبار کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور کاروبار کا مطلب ہے نفع اور نقصان کا ٹھیک ٹھیک حساب لگانا جو انھیں لگانا آتا ہے۔ بہت اچھی طرح آتا ہے، ریٹنگ کے میدان کو وہ پہلے بھی متعدد بار سر کرچکی ہیں اور ناظرین کے ایک بڑے طبقے کو اب ایسے ڈرامے دیکھنے کی عادت ہوچکی ہے جن پر مومنہ درید کا نام لکھا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں مومنہ درید جو بھی ڈراما بناتی ہیں وہ تجارتی تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کی حسیت اور دلچسپی کو دھیان میں رکھ کر بنایا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر گھروں میں جہاں ٹی وی کا ڈراما دیکھا جاتا ہے ہم ٹی وی کو ہی ڈرامے کا چینل سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ واحد چینل ہے جس نے پروفیشنل تقاضوں کے ساتھ ساتھ اخلاق، تہذیب اور سماجی ویلیوز کا بھی اوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خیال رکھا ہے۔ عورت کی سب سے کم بے حرمتی اسی چینل پر دیکھنے میں آتی ہے وگرنہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو عورت نام کو ذلیل کرکے ہی اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔

برائی دکھانا اور برائی کے چہرے سے پردہ اٹھانا بری بات نہیں ہے مگر برائی کو ایسے چمکا دمکا کر، خوب سجا سنوار کے پیش کرنا کہ وہ اذہان کو مسخر کرلے یقینا بری بلکہ بہت بری بات ہے کیونکہ ایسے عمل سے سماج میں پہلے سے موجود گراوٹ میں مذید اضافہ ہوتا ہے اور ایسی کسی بھی اضافیت کے ذمہ داران پوری طرح سماج اور انسانیت کے مجرم ہیں۔

خدیجہ مستور

دنیا میں ایسے بہت سے کاروباری افراد اور ادارے ہیں جو جس دنیا اور جس معاشرے، جن لوگو ں سے کھاتے کماتے ہیں وہاں اپنی آنے والی اور موجودہ نسلوں کے لیے کچھ نہ کچھ ایسا کام بھی ضرور کرتے ہیں جو تاریخ ساز اور انسان دوستی کی شاندار مثال بن کے تابندہ رہتا ہے۔ جیسے کسی ایسے علاقے میں کوئی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام جہاں اس کی شدید کمی ہو۔ کسی یونیورسٹی یا کسی کالج کی نیو رکھنا جس کی وجہ سے نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاسکتا ہو۔

کہنے کا مقصد ہے کہ جس سماج اورجس خطے سے آپ اتنا کچھ لیتے ہیں اسے کچھ ایسا دینا بھی آپ کا فرض ہے جس کے لیے آپ کو عظمت رفتہ کے کسی نہ کسی سلسلے سے جوڑا جاسکتا ہو۔ کھایا پیا اور موج مستی میں اڑایا ہوا کچھ بھی یاد نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ساتھ جاتا ہے لیکن جو کام تمدن اور سماج کی بڑھوتری، شعور کی بالیدگی کے لیے کیا جاتا ہے وہ ہی کام سمجھیے زندگی کو آگے بڑھانے میں آپ کے نام نامی کو زندہ رکھنے کا وسیلہ بنتا ہے۔

کاروباری نوعیت کے ڈراموں کی جو برسات دن رات ٹی وی چینلوں پر ہوتی ہے ان سے ناظرین کو نہ شعور کی بالیدگی ملتی ہے نہ ہی حسیات کی بلوغت کا کوئی اشارہ ملتا ہے۔ جو کچھ ملتا ہے، بھلے ہی اس کے ملنے سے دیکھنے والے کا وقت اچھا گزرجاتا ہو لیکن ان میں زندہ رہنے، یاد رکھے جانے، تہذیب و ادب کو جلا بخشنے کا کوئی ہنر ہوتا ہے نہ صلاحیت۔ یہ ٹھیک ہے کہ عظیم اور بڑے کام کوئی روز روز برپا نہیں ہوتے، ان کے لیے محنت شاقہ چاہیے ہوتی ہے، رات کا تیل اور دن کے اجالے کی پوری روشنی اکٹھا کریں تب جاکے شاہکار تخلیق ہوتے ہیں۔

دشت ہستی بنے مقتل تو لہو روتے ہیں دل

دل لہو روئیں تو ہوتی ہے کہانی پیدا

مصطفیٰ آفریدی

ایسی کہانی ایسا ہی ناول ہے آنگن۔ جسے مرحومہ خدیجہ مستور نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ناول اردو کے گنے چنے ان ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے جو اردو ادب کی تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔ کئی دھائیوں پہلے 1962 میں لکھا گیا یہ ناول آج بھی اسی لگن اور دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے جیسا کہ اب سے کئی سال پہلے ایسی تخلیق جو عظمت کے سنگھا سن پر متمکن ہو اس کے لیے یہی معیار طے کیا جاتا ہے کہ وقت اور زمانہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

وہ تو مدتوں کے لیے زندہ رہنے کو زمین پر اتاری جاتی ہے جیسے شیکسپئیر کے ڈرامے جنھیں قریب پانچ سو برس گزرنے کے بعد آج بھی دنیا کے ہر خطے اور ہر تہذیب میں نہ صرف پڑھا جاتا ہے۔ اسٹیج کیا جاتا ہے، ان ڈراموں پر متعدد بار فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں اور شاید دنیا کی ہر تہذیب ہر فنی مرکز میں ان ڈراموں کو بنایا اور دیکھا جاتا رہا ہے۔ کیونکہ ان میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے جیسی صلاحیت ہے وہ سب انسانوں، سب تہذیبوں اورسب تمدنوں کا آئینہ ہیں۔ ان میں ہر کردارکو کسی نہ کسی شکل میں اپنا آپ اور اپنی تصویر نظر آتی ہے۔ ایسا بہت کم کسی فنکار کی تخلیق کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ صدیوں تک یونہی ترو تازہ رہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔

آنگن۔ بھی تخلیق کے اسی چشمے کی ایک بوند ہے جسے صدیاں تو نہیں گزریں لیکن کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آج اس ناول کو ٹی وی ڈرامے کی شکل میں دیکھ کر مان لینا پڑتا ہے کہ اس کی تازگی اور تابندگی میں وہ ہی پہلے جیسی خوشبو ہے جو حسیات کو معطر کرنے کا کام کرتی ہے۔

آنگن جیسے ناول کو ٹی وی ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا ایک ایسا ہی کام ہے جیسے کسی بے آب وگیا صحرا میں کوئی ایساکنواں کھدوانا جس کے پانی سے خلق خدا مدتوں سیراب ہوتی رہے۔ یا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا پھر تعلیم و شعور کی درس گاہیں۔ آنگن ادب کی درس گاہ ہے اس ناول کو ڈرامے کے قالب میں ڈھالنے کا جو کام مصطفی آفریدی نے کیا ہے اس کے بعد ٹی وی ڈرامے کے ماتھے پر لگا ہوایہ کلنک کسی نہ کسی حد تک ضرور دھندلایا ہے کہ یہاں کبھی ادبی اور انٹلیکچوئلز کی سطح کا کوئی کام کیا ہی نہیں جاتا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2