چپاؤ: باجوڑ کی گمنام لیکن دلکش آبشار


ضلع باجوڑ میں دنیا کی نظروں سے اوجھل ایک ایسی آبشار ہے جو پاکستان کے چند خوبصورت ترین آبشاروں سے مشابہت رکھتی ہے چند ہی لوگ اس تک پہنچ پاتے ہیں اور وہ کسی کو بھی اس کا صحیح پتا نہیں بتاتے اور یہ بلند پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ آبادی سے بہت دور، اس کی خوب صورتی تصویر میں دیکھ کر صرف اچھی ہے نہیں کہا جاسکتا بلکہ دیکھنے والے اس کی تصویروں میں کھو جاتے ہیں اس کو ایک خوابناک منظر تصور کرتے ہیں۔ ہو ا کچھ یوں کہ آج سے تقریباً دو ہفتے قبل میں نے سوشل میڈیا پر نہایت حسین آبشار کی ویڈیو دیکھی، یہ ویڈیو ضلع باجوڑ ناوگئی کے معروف سیاسی شخصیت شیخ جہانزادہ کے بھائی شیخ گل بادشاہ نے اپلوڈ کی تھی۔

میں نے فوری طور پر ان سے اس بابت مختصر معلومات لی۔ میں نے یہ طے کرنے میں کچھ وقت لگایا کہ ہم یہاں کا رخ کب کریں۔ پھر میں نے سوچا کہ مجھے وہاں جانا چاہیے آخر کب تک اس کی خوبصورتی کے قصے دوسروں سے سنتا رہوں گا۔ میں نے اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا۔ جمعہ 20 اپریل کی دوپہر یعقوب درانی، کلیم خان اور قیام خان مجھے لینے تنی آئے اور یعقوب درانی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر سفر کا آغاز کیا۔ تحصیل سلارزئی پشت پہنچ کر ہم دائیں جانب نیچے اترے اور تارانو گمبٹ روڈ سے دائیں جانب موڑے، 3 کلومیٹر آگے جاکر پختہ سڑک ختم ہوگئی اور آگے میرے خیال کے مطابق یہ ایک کچا پتھریلا رستہ تھا جبکہ مقامی لوگ اسے آرام دہ سڑک کہتے تھے کیونکہ اس سے آگے اس کی حالت اور بھی خراب ہونی تھی، جوں جوں ہم آگے بڑھتے رہے ویسے ویسے کچی سڑک خراب سے خراب ہوتی جارہی تھی بالآخر ہم نے ایک کھلی جگہ پر اپنی گاڑی روک دی، اور گاڑی سے اُتر کر یہاں سے پیدل جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

موسم بہت خوشگوار تھا دور تک پھیلی وادی ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھی اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا اور پہاڑوں کے چوٹیاں سورج سے ہمارا تعلق ختم کرنے میں مگن تھی۔ راستہ جیسا سنا تھا اس سے زیادہ خطرناک پایا۔ دور دور تک گہری سبز وادی پھیلی ہوئی تھی، اونچے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ ایک تنگ سا رستہ گولائی بناتا ہوا نیچے کو اُتر رہا تھا۔ ہم اسی رستے پر چلے، کئی جگہوں پر یہ راستہ بہت تنگ ہو جاتا ہے۔ سلارزئی کے بالائی علاقوں کی مٹی اور ریت بارش کی وجہ سے بہہ جاتی ہے اور پہاڑوں کی بلندی پر بنے رستے بھی ساتھ ہی لے جاتی ہے۔

ذرا سا پانی اس مٹی کو پھسلواں بنا دیتا ہے۔ تھوڑا آگے چلے تو راستہ ختم ہوگیا۔ اس دوران نے ہم نے مقامی بچوں کو پیسوں کے عوض اپنے ساتھ گائیڈ کے طور پرلیا تھا لیکن یہاں سے آگے جانے سے انہوں نے بھی انکار کردیا ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ معمولی سے باتوں پر فائر کھول دیتے ہیں آپ کے پاس موبائل کیمرے آن ہیں ایسا نہ ہوں کہ وہ فائر کر دیں اور ہم بھی مارے جائیں خیر ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ راستہ کہاں ہے اور راستہ بالکل بھی نہیں تھا۔

ایک دیوار تھی اور یہ دیوار حد بندی کے لئے تھی جس کے اُبھرے ہوئے پتھروں کو پکڑ کر نیچے اترا جا سکتا تھا۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتانا ہی بھول گیا تھا کہ یعقوب درانی جو کہ بھاری بھرکم جسم کا حامل ہے وہ ہمت ہار کر پیچھے ہی رہ گیا تھا۔ اس جگہ کا انتخاب میں نے ہی کیا تھا لہذا مجھے ان سب کو گائیڈ کرنا تھا۔ اب میں ہی راستہ بناتا رہا اور آگے چلتا رہا۔ تھوڑا آگے چلے تو اوپر سے آتا پانی راستے کو گیلا کر رہا تھا یہاں سے ہم نے مزید نیچے اترنا تھا مگر پھسلن اتنی تھی کہ ہم آرام سے چل نہیں سکتے تھے چنانچہ ہم پہاڑی کی اوٹ میں آگے ان چھوٹے درختوں کی شاخوں سے لٹک کر نیچے آئے۔

نیچے گہرائی میں دیکھے بغیر پہاڑ کا سہارا لئے نیچے اُترے۔ لیکن جب ہم اس آبشار تک پہنچے تو ساری تھکاوٹ بھول گئے سورج غروب ہونے میں بیس منٹ کا وقت باقی تھا۔ ساتھیوں نے پانی کے بل کھاتی لہروں کے ساتھ کھیلنا اور تصویر کشی شروع کی۔ یہ جگہ آبشار کی آوازوں کے ساتھ آبشار پر آنے والے ہمارے دوستوں کی آوازوں سے گونجنے لگی۔ جنگل میں منگل ہو گیا۔ اس دوران ہمارے لیے حوصلہ افزاء خبر یہ تھی کہ دور سے دیگر ساتھیوں کو ہمارا رہ جانے والا دوست یعقوب درانی نظر آگیا جو تھکاؤٹ سے ہلکان ہورہا تھا بالآخر وہ بھی پہنچ ہی گیا۔

ہم نے خوب عکاسی کی، پانی کے ساتھ کھیلے، نماز عصر آدا کی۔ کافی دیر یہیں گزارنے کے بعد ہم نیچے کی طرف چلے مگر یہاں بہت بڑی بڑی چٹانوں نے ہمارا رستہ روکا ہوا تھا۔ کچھ دیر تک تو چٹانوں کو پھلانگتے رہیں۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد طے ہوا کہ نصف ٹیم نیچے مزید ہائیکنگ کرے گی اور ان خوبصورت مقامات کی عکاسی کرے گی لیکن سورج غروب ہوچکا تھا لہذا ہمارا کیمرہ صاف عکاسی نہیں کررہا تھا اس لیے آہستہ آہستہ واپسی کا سفر اختیار کریں گے اور جن رستوں سے ہم درختوں سے لٹک لٹک کر نیچے اترے تھے خود سوچیں کہ واپس کیسے آئے ہوں گے۔

آہستہ آہستہ ہم چلتے رہے۔ سب کو بھوک لگی ہوئی تھی، میں نے راستے ہی میں مچھلی کا آرڈر دیا اور پھر تقریباً ایک گھنٹہ کے ڈرائیو کے بعدتلے ہوئے مچھلی کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلی۔ ہم نے اس آبشار کی ڈھیر ساری تصویریں اور وڈیو بنائیں۔ یہاں تک پہنچے کے لئے آپ کو ہیڈکواٹر خار سے پشت تک 22 کلومیٹر جبکہ پشت سے اس آبشار تک جسے مقامی زبان میں چپاؤ کہتے ہیں تقریباً 14 کلومیٹر کا راستہ طے کرنا ہوگا، یہ تمام راستہ اگر آپ کے پاس اچھی گاڑی ہو میری مراد اچھی سے یعنی اونچی گاڑی ہو تو آپ کو کل ایک گھنٹہ پہنچنے میں لگے گا۔ آپ بھی اس قدرتی آبشار اور حسین وادی کا وزٹ ضرور کیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).