گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ڈرامیٹکس کلب اور مرزا اطہر بیگ کا ”آخری شو“


اِس سال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ڈرامیٹکس کلب جی سی ڈی سی کی طرف سے پیش کیے جانے والا سالانہ کھیل ”آخری شو“ پنجابی زبان میں لکھا گیا کھیل تھا۔ معروف فکشن نگار اور جی سی یو میں شعبہ فلاسفی کے اُستاد مرزا اطہر بیگ اِس کھیل کے لکھاری تھے جبکہ ایڈوائزر ڈرامیٹکس کلب اورشعبہ انگریزی کے استاد ہدایت کارعرفان رندھاوا اور اُن کی ٹیم کی کاوشوں سے تین دن تک یہ کھیل جی سی یو کے بخاری ہال میں سٹیج کیا گیا۔

ڈرامیٹکس کلب کے اولڈ ممبراور تھیٹر کے طالب علم کی حیثیت سے ”آخری شو“ کے آخری شو میں ہم بھی ناظرین میں شامل تھے۔ گزشتہ چند سالوں سے پروڈکشن و پرفارمنس کے علاوہ تھیٹر دیکھتے ہوئے اِس شوق کی آبیاری کر رہے ہیں۔ لائیوپرفارمنسز یا بصورت ڈی وی ڈیز بیسیوں ملکی و غیر ملکی پروڈکشنز کے تھیٹر سے لطف اندوز ہو لیا جائے لیکن جو انتظار ہر سال گورنمنٹ کالج ڈرامیٹکس کلب کے ڈرامے کا ہو تا ہے وہ کہیں اور نہیں ہو سکتا اور اِس دفعہ دوہرے اضطراب کی وجہ اِس کھیل کے لکھاری کے طور پر مرزا اطہر بیگ کا نا م تھا جِن کی تحریروں کے ہم مداح ہیں۔

مرزا اطہر بیگ کا نام فکش کے قارئین کے لیے قطعاً نیا نہیں۔ آپ اُردو کے تین بہترین ناولز غلام باغ، صفر سے ایک تک، حسن کی صورتحال۔ خالی جگہ پرُ کریں اور ”بے افسانہ“ جیسے افسانوی مجموعہ کے خالق ہے۔ بطور ڈرامہ نگار دلدل، نشیب، دوسرا ٓسمان، حصار، پاتال اور دیگر کئی ایک ڈرامہ سیریز کی وجہ سے بھی لوگ آپ کے نام اور کام سے بخوبی واقف ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ آپ ایک عرصہ سے گورنمنٹ کالج یو نیورسٹی کے شعبہ فلاسفی سے بطورِ اُستاد منسلک ہیں۔

آپ کا خاصایہ ہے کہ فلسفہ و نفسیات سمیت کئی علوم کے تڑکے سے تحریر کومعنی خیز تو بنالیتے ہیں لیکن کہیں بھی اَدب پارے کا حُسن ماند نہیں پڑنے دیتے۔ متنوع علوم پر دسترس، عمدہ کردار نگاری اور حقیقت پسندی کے باعث آپ کی ناول نگاری نے اُردو فکشن کو عالمی فکش کے قریب لانے کے لیے ایک اہم کڑی کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے۔

دوسری طرف 1890 ء میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والاجی سی ڈی سی (گورنمنٹ کالج ڈرامیٹکس کلب) بھی مضبوط تاریخ کا حامل ہے۔ اِس پلیٹ فارم سے نہ صرف سید امتیاز علی تاج، حکیم احمد شجاع، رفیع پیر، احمد شاہ پطرس بخاری، صوفی غلام مصطفی تبسم اور پھر اصغر ندیم سید جیسی نابغہ روزگار ہستیاں منسلک رہیں بلکہ پروفیسر قیوم جوجو، محمدصفدر میر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، سرمد صہبائی، عمران پیرزادہ، عرفان پیرزادہ، سیلمان شاہد اور مدیحہ گوہر جیسے گوہرِ نایاب فنون و ادب کو دان کیے ہیں۔

آغاز سے اب تک انگریزی، اُردو، پنجابی کے علاوہ سنسکرت زبان میں لکھے گئے کھیل بھی یہاں سے سٹیج کیے جا چکے ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کا حالیہ لکھا گیا کھیل ”آخری شو“ ایک طبع زاد پنجابی کھیل ہے۔ اِس سے پہلے سکرپٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو جی سی ڈی سی کی تاریخ ہم کو یہی بتاتی ہے کہ زیادہ تر اِس پلیٹ فارم سے انگریزی پلے یا اِ ن پلیز سے ماخوز کہانیوں کو سٹیج کرنے کی روایت مضبوط رہی۔ 1994 ء میں اصغر ندیم سید کا لکھا گیا سکرپٹ ”بھولا سچ بولا“ ایک طبع زاد کھیل تھا جِس کے بعد 2012 ء تک طبع زاد تحریر پر دوبارہ کوئی کھیل نہ کھیلا جا سکا۔ پنجابی سکرپٹ کی بات کی جائے تو تقریبا 12 سال پہلے شیکسپیئر کے ڈرامے ”A Mid Summer Nights Dream“ کو صوفی غلام مصطفی تبسم کی قلم سے دی گئی پنجابی صورت بعنوان ”ساون رین دا سفنا“ کے نام سے کھیلا گیا۔ طویل عرصہ کے بعد ایک پنجابی طبع زاد کھیل ”آخری شو“ ناظرین کے لیے خاصی دلچسپی کا حامل تھا۔

مذکورہ کھیل کی کہانی سینما اور اُس سے جُڑے روایتی کلچر کی کارپوریٹ بزنس کے باعث ہونے والی زبوں حالی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بُنی گئی ہے۔ جِس میں دیکھایا گیا سرمائے کی دوڑ نے کیسے اس روایتی اور پرانے سینما کلچر کو تباہ کر دیا ہے۔ اِس کھیل میں ”کنگز سینما“ پر آخری شو کی کہانی قدیم سینما کلچرسے جڑے کرداروں کی مدد سے دکھائی گئی ہے جِس کے پہلے سین میں دو اخباری رپورٹرز کو شہرِ لاہور میں سینماکلچر کی دم توڑتی تہذیب کو رپورٹ کرنے کے لیے ٹاسک دیاجاتا ہے۔

کنگز سینماکے مالک آغا جبار کا بیٹا جمشید آغا امریکہ سے فلم پڑھ کر آیا ہے لہذا اِس پرانے سینما کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے اُس جگہ پلازہ کھڑا کرنے کے لیے فروخت کیا جا رہا ہے تاکہ جمشید آغا کو ہائی کلاس سوسائٹی میں ”ہائی جنٹری“ سینما بنا کر دیا جا سکے۔ اِس فیصلے پر سینما کے پرانے سٹاف مینجرحبیب، عرصہ دراز سے گیٹ کیپرکے طور پر کام کرتے چاچا بشیر اور دیگر سٹاف کو اپنی ملازمت ختم ہونے کا خوف لاحق ہے تواِس کے ساتھ ساتھ وہاں گولیاں ٹافیاں، گرم انڈے اور لنڈا بیچنے والوں، چنا ریوڑی کا ٹھیلہ، اور نان ٹکی لگانے والوں کو اپنے اپنے چولہے ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے ہو جانے کا ڈر بھی ہے اور تو اور تلاشِ رزق میں روزاِس سینما پرآنے والے جیب کترے ”شوکے“ اور بوڑھے باپ کو ساتھ لیے بھیک مانگنے والی ”پینو“ کی پریم کہانی بھی اِس سینما پر لگنے والے آخری شو کے ساتھ ہی ختم ہونے والی ہے۔

پینو کو بیچ کر پیسے کھرے کرنے کی خواہش رکھنے والے ”مودے بدمعاش“، پینو کے بھائی ”ماکھے نشئی“ اور اِن جرائم پیشہ کرداروں کے پیچھے بھاگتی پولیس کے کردار بھی مرزا صاحب نے اِسی سینما کہانی کے ساتھ باندھے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک المیے کو بیان کرتی اِس کہانی میں کئی اِک ”ٹریجک سیچویشنز“ ہیں تو ناظرین کہ چہروں پر ”کامک ریلیف“ بخشتے بیشتر ڈائیلاگ بھی اپنی جگہ معنی خیز اہمیت کے حامل ہیں۔ مربوط سکرپٹ اور عمدہ اداکاری کو لیے اِس ”آخری شو“ کے سیٹ پر بھی خاص محنت کی گئی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ لیکن کیا اجتماعی سطح پر ”آخری شو“ کا یہ سکرپٹ اُس کہانی کو مکمل طور پر پیش کر سکا ہے ’جو مرزا اطہر بیگ اپنے ناظرین تک پہنچانا چاہتے تھے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

اپنے ذاتی تجزیے اور ”آخری شو“ دیکھنے والے ادب اور آرٹ سے جُڑے دیگر ناظرین سے ہونے والے تبادلہ خیال کو سامنے رکھتے ہوئے میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اِس ”آخری شو“ جو کہ میرے علم کے مطابق مرزا اطہر بیگ کا پہلا باقاعدہ تھیٹر سکرپٹ ہے میں مرزاصاحب کے قارئین و ناظرین کو قدرے مایوسی کا سامنا ہوا ہے۔ اِن کے ناولز اور ڈراموں میں سامنے آنے والے کردار جِس قدر حقیقی زندگی کے قریب نظر آتے ہیں اُس کے برعکس زیرِ بحث کھیل کے کردار بنواٹی اور غیر حقیقی دکھائی دیتے ہیں۔

سٹیج پر نظر آنے والے ”رابن ہُڈ“ ٹائپ جیب کترے اوربھکارن پینو کا کردار جو کہ اصل میں منگتی نہیں بلکہ حالات نے اُس کو مانگنے پر مجبور کر دیا اپنے تئیں بوگس معلوم پڑتے ہیں۔ کیا حقیقیت میں سینما کے رش میں جیب صاف کرنے والے جیب کتروں کے دِ ل اصل میں اتنے نرم ہوتے ہیں کہ وہ ”دیہاڑی لگنے“ پر پیسے دوسروں میں تقسیم کرتے نظر آئیں یا ایسا کردارکوئی ایک آدھ ہی ہو سکتا ہے؟ یا کیا جیب کترے کو بنا نرم دِل دیکھائے اُس کلچر سے جوڑنا ممکن نہیں؟

دوسری طرف پینو کے منہ پر موجود یہ کہانی کہ وہ منگتی نہیں حالات نے مجبور کر دیا ہے ہر دوسرے مانگنے والے کی بناوٹی کہا نی ہے جبکہ پینو کی حقیقی کہانی کچھ ایسی ہے قابلِ ترس دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پینو کا نشئی بھائی ایک طرف تو جوان بہن اور بوڑھے بیمار باپ کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ چکا ہے دوسری طرف پولیس سے چھپتا چھپاتا باپ کو گرم لوئی دینے سٹیج پر وارد ہوجاتاہے۔ اِس کھیل کا وِلن مودابدمعاش بھی بغیر کچھ کیے ہی پکڑا جاتا ہے جِس سے کہانی بھاگ کر ہیپی اینڈنگ کی طرف چل پڑتی ہے۔

جبکہ حقیقی منظر نامے کو دیکھیں تو رَش میں جیب کاٹ کے نشہ پورا کرنے والے، منگتیوں کے بھیس میں جسم فروشی کرنے والیوں اور مجبور لڑکیوں کو اغوا کر کے کھوٹے پہ بیچنے والے دلالوں کی پولیس سے ہوتی مک مکا کی کہانیاں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اِن کرداروں کے ساتھ ساتھ سینماکلچر سے جُڑے کچھ مزید اہم کرداروں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جیسا کہ کولڈ ڈرنکس اور چائے پیچنے والے لڑکوں، ٹکٹ کے لیے لائن میں لگے، نو بیاہے اور کالج یونیورسٹیز سے جوڑوں کی صورت آتے، سینما کے باہر جھگڑا اور شور کرتے فلم بینو ں اور کن اکھیوں سے بلیک میں ٹکٹ فروخت کرنے والے بلیکیوں کے کرداربھی قابلِ شمار ہیں۔

آغاز کا منظر میں جِس میں ایک اخبار کا ایڈیٹر رپورٹرز کو سینما کلچر پر کام کرنے کو ٹاسک دیتا ہے بوراور قابلِ گرفت نہ ہونے کی باعث آغاز میں ناظرین کوپوری طرح جوڑنے میں کامیاب نہیں بنایا گیا۔ مختصر مکالمے تھیٹر کی جان سمجھے جاتے ہیں لیکن دوسے تین جگہوں پر طویل مکالموں نے کہانی کو خاصا ڈریگ کیا بالخصوص جہا ں تھیٹر کے مالک آغا جبار اور اُس کے امریکہ پلٹ بیٹے جمشید آغا کی آپس میں گفتگو ہوتی ہے اور ایک جگہ جہاں شوکے جیب تراش کو پینو اپنی کہانی سناتی ہے۔

اِس دوران طویل مکالموں اور سیٹ پر موجود دیگر کرداروں کی یکساں نوعیت میں مائم (خاموش اداکاری) ناظرین کی توجہ توڑنے کا باعث بنی۔ کھیل کا سیٹ اچھا تھا لیکن دم توڑتے سینما کلچر سے وابستہ کہانی کو پیش کرنے کے لیے سیٹ پر بہت کچھ مزید کیا جا سکتا تھا علاوہ ازیں ساؤنڈ کے شعبہ سے کھیل کو کچھ خاص تقویت بخشنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

اِن تمام کے باوجود طبع زادپنجابی کہانی کے طور کھیل پیش کرناجی سی ڈی سی کی ایک اچھی کاوش ہے۔ مرزا اطہر بیگ اور اِن کے قدکے دوسرے لکھاری اگر جی سی یو ڈرامیٹکس کلب کے لیے عمدہ سکرپٹ پیش کرتے رہیں تو آیندہ اِس پلیٹ فارم سے پاکستانی ڈرامہ، تھیٹر این فلم انڈسٹری کے لیے اچھی نرسری پیدا ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).