کیا آپ نے اب تک لال کبوتر نہیں دیکھی؟


جب سے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگی تھی، میرے سنیما کے چکر تقریباً ختم ہو گئے تھے۔ بظاہر ٹریلر میں متاثر کن لگنے والی پاکستانی فلمیں سنیما میں چربہ ہی ثابت ہوتی ہیں جبکہ انگریزی فلمیں نیٹ فلیکس پر با آسانی دیکھی جا سکتی ہوں۔ اس کے باوجود سال میں ایک آدھ فلم ایسی آ ہی جاتی ہے جو سنیما کھینچ لے جاتی ہے۔ لال کبوتر ایسی ہی فلم ہے۔

لال کبوتر کو ریلیز ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ دل میں شکوک تھے لیکن ہر دوسرے روز ٹویٹر پر کسی نہ کسی کی تعارفی ٹویٹ پڑھنے کو مل جاتی تھی۔ کمال خان نے ایسا بھی کیا شاہکار بنا دیا، یہ سوچ کر فلم دیکھنے کا ارادہ بنا ہی لیا۔

ایک دوست کو راضی کیا اور ہم ایم ایم عالم روڈ پر موجود ایک سنیما پہنچ گئے۔ دس منٹ کی تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے فلم کی شروعات مِس کر چکی تھی لیکن کہانی پکڑنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ اس فلم کی کہانی دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک کردار عالیہ (منشا پاشا) کا ہے جس کا صحافی شوہر (علی کاظمی) اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اب وہ اپنے شوہر کے قاتل کا سراغ لگا رہی ہے۔

دوسرا کردار عدیل (احمد علی اکبر) کا ہے جو لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ٹیکسی چلا کر گھر کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ عدیل کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح دبئی چلا جائے اور وہاں ایک اچھی زندگی گزارے۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔

عدیل اور عالیہ کس طرح ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی میں ان کا کتنا کردار رہتا ہے، بقیہ کہانی اسی بارے میں ہے۔

اس فلم کے دیگر کرداروں میں ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون (محمد احمد)، ایک ایس ایچ او (راشد فاروقی) اور ایک ہِٹ مین (سلیم معراج) بھی شامل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کو دیکھ کر آپ کو حقیقی زندگی میں موجود ایسے ہی کسی کردار کی یاد آئے۔ اس صورت میں فلم شروع ہونے سے پہلے دکھایا جانے والا ڈسکلیمر یاد کر لیجئیے گا۔

فلم کے تمام اداکاروں کی اداکاری قابلِ تعریف ہے لیکن راشد فاروقی واضح میدان مارتے نظر آتے ہیں۔ ان کے تاثرات اور ڈائیلاگ ڈیلیوری قابلِ داد ہیں۔ اگلے سال لکس سٹائل ایوارڈز میں ایک ایوارڈ ان کا بنتا ہے۔

لال کبوتر کی خوبصورتی اس کی سادہ کہانی میں ہے۔ اس فلم کو کامیاب بنانے کے لیے نہ ہی کسی گلیمر کا سہارا لیا گیا ہے، نہ ہی آئٹم نمبر کا اور نہ ہی کسی ڈرامائی صورتحال کا۔ ‘جسٹ کیپ اٹ سمپل’ کا اصول اپناتے ہوئے کہانی کو حقیقت کے قریب ترین رکھا گیا ہے۔ عدیل اور عالیہ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زندگی سے ویسے ہی لڑتے ہیں جیسے ہم۔ ہمارے فلم ساز کہانی فلم کو سنسنی خیز بنانے کے چکر میں اتنا الجھا دیتے ہیں کہ ناظرین کی توجہ فلم سے ہی ہٹ جاتی ہے، لال کبوتر میں ایسا نہیں ہوتا۔

اس فلم پر بہت قلیل لاگت آئی ہے لیکن اتنے کم بجٹ میں اس پائے کی فلم بنانا اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ تمام تکنیکی شعبے مثلاً سائونڈ، اسٹائلنگ، وارڈ روب، موسیقی اور پروڈکشن کوالٹی بہترین ہیں۔ بعض لوگوں کو اس فلم کے کچھ پرتشدد مناظر پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن مشہورِ زمانہ ڈرامہ سیریز گیم آف تھرونز کے مقابلے میں وہ معصومانہ سے مناظر ہیں جو کہانی کو آگے بڑھانے اور سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ مجھے فلم دیکھنے میں ایک مہینہ بھی اسی لیے لگا کہ ایک دوست نے کچھ ایسا ہی ریویو دیا تھا۔

اب یہ فلم باکس آفس پر ہٹ ہوگی یا نہیں، یہ تو وقت بتائے گا لیکن جو لوگ یہ فلم دیکھ چکے ہیں ان کے دل میں یہ پہلے ہی ہٹ ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).