!بس اب مجھے مرنے دیا جائے


میری سپلی آ گئی ہے۔ میری امی مجھے بہت ڈانٹیں گی۔ مجھ سے کچھ نہیں پڑھا جا رہا۔ میں خود کشی کر لوں گی۔ آپ مجھے بس نیند کی گولیاں دے دیں۔ مجھ سے ایک سا ل جونیئر شمائلہ سخت پریشانی کا اظہار کر رہی تھی۔ اس کے لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ اگر میں نے مدد نہ کی تو وہ کہیں اور قسمت آزمائی کرے گی۔ اچھا تم یہ میڈیسن کی بوتل لے جاؤ۔ دیکھو کسی کو پتہ نہ لگے۔ میں نے چپکے سے الماری سے نکال کر ایک چھو ٹی سی بوتل اسے تھما دی۔

شمائلہ کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور وہ اس چھوٹی سی بوتل کو اپنے دوپٹے میں چھپا ئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ چلو یہ بلا تو ٹلی۔ میں بھی سکون سے لمبی تان کر سو گئی۔ اگلی صبح دروازہ زور زور سے پیٹنے کی آواز سے آنکھ کھلی۔ لپک کر چٹخنی گرائی تو سامنے شمائلہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آیا، ہیں تم ابھی تک زندہ ہو؟ کبھی دوستوں کا خیال نہ کرنا یہ نہ ہوا کہ ہمیں اپنے قلوں کی بریانی ہی کھلا دیتیں۔

میں نے کف افسوس ملتے ہوئے دلی رنج کا اظہار کیا۔ جواباً شمائلہ نے ایک زور دار دھموکا میری پشت پر رسید کیا۔ آپ نے کون سی دوا دی تھی رات مجھے؟ میں نے تو اپنا آخری خط بھی لکھ دیا تھا اتنا دکھ بھرا کہ لکھتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اور دل بھر کے رونے کے بعد تو نیند بھی بہت اچھی اور کھل کر آئی۔ پر آنکھ کھلنے پر اندازہ ہوا کہ میں ابھی تک زندہ ہوں حالانکہ میں نے کافی ساری گولیاں پھانک لی تھیں۔

ہاں تو وٹامن سی کی ٹیبلٹ کھا کر کون مرتا ہے؟ میں نے بے پرواہی سے جواب دیا۔ اور تمہاری امی ہوسٹل کے گیسٹ روم میں پہنچ چکی ہیں۔ چوکیدار دو بار آواز دے کر جا چکا ہے۔ جاؤ اور کانوں میں روئی ٹھونس کر جانا۔ ایک گھنٹے بعد نکال دینا۔ جب ان کا لیکچر ختم ہو جائے۔ میں نے اطلا ع دی لیکن میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بجلی کی رفتار سے دوڑ تی ہوئی شمائلہ گیسٹ روم کے دروازے پر میں کھڑی اپنی امی کے سینے سے لگ کر دھواں دار آنسو بہانے میں مصروف ہو گئی۔

اس واقعہ کے چند روز بعد ہی صبا کی روم میٹ نوشین نے اپنے منگیتر سے فون پر تلخ کلامی کے بعد نیند کی اصلی گولیوں کا پورا پتہ پھانک لیا۔ یہ گولیاں اس اہتمام کے ساتھ کھائی گئیں کہ صبا نے پہلے ساری کہانی کی تفصیل سنی جس کے بعد نوشین نے صبا کی موجودگی میں اس کے منع کرنے کے باوجود بڑ ی مقدار میں گولیاں نگل لیں۔ صبا نے فوری طور پر ہاسٹل وارڈن کو اطلا ع دی۔ نوشین کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں اس کے معدے کی صفائی کر دی گئی۔ پولیس کیس تھا لیکن وارڈن نے یہ کہہ کر جان چھڑوا دی کہ غلطی سے دوا کھا لی۔ خودکشی کی خبر سن کر نوشین کا منگیتر بھی ہسپتال پہنچ گیا اور لگا معافیاں مانگنے۔ نوشین نے بھی تھوڑی سی ردوکد کے بعد ہری جھنڈی دکھا دی۔

ہر سال نئے ایڈمشن کے دنوں میں ہر طرف تازہ تازہ نو عمر چہروں کی بہار لگی ہوتی ہے۔ رامین بھی بڑا خوبصورت اضافہ تھی۔ جہاں جاتی سب کی نگا ہیں اس کا تعاقب کرنے لگتیں۔ وہ تھی ہی اتنی پیاری۔ فرسٹ ایئر ہو اور فولنگ نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ فورتھ ایئر کے حمزہ کو بھی شرارت سوجھی اور ماچس کی تیلی سے کلاس روم ناپنے کا کام بتا دیا۔ ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ وہ اپنی فولنگ کے دوران یہ پوری کلاس ماچس کی تیلی سے خود بھی ناپ چکا ہے لہٰذا کوئی ہیر پھیر نہ کیا جائے۔

رامین نے کچھ دیر تو یہ ٹاسک کیا لیکن پھر سب چھوڑ چھاڑ رونے میں مصروف ہو گئی۔ حمزہ نے جو رامین کو روتے دیکھا تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کہیں پرنسپل سے شکایت کر دی تو ڈسپلنری کمیٹی کی پیشی بھگتنی پڑ جانی تھی۔ فوری طور پر معافی مانگ کر یہ جا وہ جا۔ پھر رفتہ رفتہ پتہ نہیں چلا کیسے دونوں ہر جگہ ساتھ ساتھ نظر آنے لگے۔ دونوں ساتھ میں لگتے بھی بہت پیارے تھے۔ حمزہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ہر بات منہ سے نکلتے ہی ماں باپ پوری کر دیتے۔

فائنل کے پیپر ہو چکے تھے۔ کچھ سٹوڈنٹ زبانی امتحان کے لئے ہاسٹل میں رکے ہوئے تھے۔ اکثریت اپنے گھروں کو جا چکی تھی۔ حمزہ کا کمرہ تین دن سے نہ کھلا تھا نہ ہی کسی نے اسے میس میں دیکھا۔ جب دروازہ توڑا گیا تو اندر حمزہ کی دو دن پرانی لاش تھی۔ اس نے خودکشی کر لی تھی۔ ماں باپ کی کل کائنات نے رامین کا رشتہ کہیں اور طے پا جانے کی خبر سن کر دنیا چھوڑ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

شمائلہ اور نوشین چاہتی تھیں کہ ان کو بچا لیا جائے تبھی انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی خودکشی کی خوا ہش کا اظہار کیا اور انہیں بچا بھی لیا گیا۔ حمزہ نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یا پھر آ س پاس کے لوگ پتہ لگانے میں ناکام رہے۔

یہ زندگی بہت قیمتی ہے۔ ایک بار ہی ملتی ہے۔ اپنے آس پاس اپنے دوستوں کے دل کی باتیں سننے کا وقت نکالیں۔ بہت بار پریشانیوں کو سننا ہی بڑی مشکل کو ٹال دیتا ہے۔ جب کوئی دوست سخت کشمکش میں نظر آئے، اپنے سب کام چھوڑ کر اسے وقت دیں۔ اس کی سنیں پوری خندہ پیشانی سے سنیں۔ اسے نہ ٹوکیں۔ جو کہنا چاہے کہنے دیں۔ رونا چاہے۔ رونے دیں۔ گالیاں دینا چاہے گا لیاں دینے دیں۔ اسے اظہار کا موقعہ دیں۔ اس کے ساتھ رہیں جب تک اسے آپ کا ساتھ درکار ہو۔

مجھے یقین ہے ہم کسی اور کو حمزہ نہیں بننے دیں گے۔ مرنے سے زیادہ زندہ رہنے کے لئے ہمت درکار ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی دوست وقتی طور پر ہمّت ہار بیٹھا ہے تو اس کی ہمّت بن جائیں وقت کو ٹال دیں۔ کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا لیکن جب درد ناقابل برداشت ہو جائے تو اسے روکنا ضرور چاہتا ہے۔ اس کا درد بانٹ لیں تا کہ وہ زندگی نہ ہار دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).