صوبوں کی تعداد میں اضافے سے عوام کی مشکلات میں کمی ہوگی


ذرا تصور کریں اگرگوادر سے کسی کو صوبائی حکومت کے مرکز کوئٹہ آنا پڑے اسے 1000 کلومیٹر طے کرنا ہے۔ ضلع کشمور سے کراچی جانے کے لئے 600 کلومیٹر اور ملتان سے لاہور 300 کلومیٹر دور پڑتا ہے۔ صادق آباد جو سندھ کی سرحد پر واقع ہے۔ وہاں کے باسیوں کو لاہور آنے کے لئے پورا ایک دن صرف کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم صوبہ خیبر پختونخواہ پر نظر دوڑائیں تو وہاں صرف لمبائی ہی لمبائی نظر آتی ہے۔ پشاور سے شمالی اور جنوبی اضلاع کئی سوکلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

اب آپ اس وقت کا بھی تصور کریں جب ہمارے حکمرانوں نے چاروں صوبے ختم کرکے ون یونٹ بنا دیا تھا اور ون یونٹ کا ہیڈ کواٹر لاہور تھا۔ لاہور سے دوسرے شہروں کی دوری کا تصور خوفناک لگتا ہے۔ ون یونٹ نظام کئی سال چلا اور یحییٰ خان نے آکر مغربی پاکستان کے صوبے بحال کیے۔ اور عوام کو اس مشکل سے نجات دلائی۔ عوام اور سیاسی پارٹیاں صوبوں کی تعداد بڑھانے کے لئے مسٔلہ اکثر اٹھاتی رہتی ہیں۔ لیکن سطح زمین پر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

اب ہرکوئی جانتا ہے کہ آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم ہوگئی ہے۔ اور صوبے مالی لحاظ سے با اختیار ہوگئے ہیں۔ مرکز سے زیادہ فنڈز ملنے لگے ہیں اور صوبوں کو آمدنی اکٹھے کرنے کے اختیارات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ اب اگر صوبوں کی تعداد بڑھا دی جائے توجو فنڈ جہاں سے اکٹھا ہوگا۔ اسی علاقے میں صرف ہوگا۔ نئے صوبے بننے سے دوردراز علاقوں میں واقع اضلاع کی ترقی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ لیکن جب صادق آباد اور بہاولنگر والوں پر حکمرانی لاہور سے کی جائے گی تو اچھی حکمرانی (Good Governess) کا تصور بہت ہی پیچیدہ ہوگا۔

ایسے ہی کوئٹہ سے ہزار کلومیٹر جنوب اور پشاورسے سینکڑوں کلومیٹر دور شمالی اضلاع پر نگرانی بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی انتخاب سے پہلے نئے صوبے کا نعرہ لگاتی ہے۔ لیکن اقتدار میں آکر سب کچھ طاق نسیاں پر رکھ دیاجاتاہے۔ اس خرابی کی ذمہ دار سب سے زیادہ عرصہ تک پاکستان پر حکمرانی کرنے والی 2۔ بڑی پارٹیاں پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں۔ یہ پارٹیاں کبھی اس مسٔلہ کو اسمبلیوں میں لے کر نہیں آئیں۔

پرویز مشرف نے لوکل حکومتوں کو با اختیار بناکر عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن سیاسی پارٹیوں سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ انہوں نے آتے ہی مقامی حکومتوں سے اختیارات واپس لے کر اپنی صوبائی حکومتوں کو پھر طاقتور بنا دیا۔ ایک عجیب صورت حال اور مجھے نظر آتی ہے۔ تقسیم سے قبل پنجاب کے کل 29 اضلاع تھے۔ تقسیم کے بعد 13۔ بھارت اور 16 پاکستان کو ملے۔ بھارت نے 13 اضلاع کو 3 صوبوں میں تقسیم کردیا اور 16 اضلاع اب تک ایک ہی تخت لاہور کے ماتحت ہیں۔

تقسیم کے بعد موجودہ پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ تھی اور اب 2017 کی مردم شماری کے مطابق 21۔ کروڑ 42 لاکھ ہوچکی ہے۔ لیکن صوبے وہی 3۔ 1 / 2 کروڑ آبادی والے ہی ہیں۔ حکمران چاہے فوجی ہوں یا سولین ان پر رویا ہی جا سکتا ہے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے میں 7 ستمبر 1958 ء میں اس وقت اضافہ ہوگیا تھا جب 5 ارب 50 کروڑ میں فیروز خان نون کے زمانے میں ہم نے گوادر کا علاقہ خرید لیاتھا۔ گوادرپر 174 سالہ عمانی حکمرانی ختم ہوگئی تھی۔

اور قارئین یہ پڑھ کر بھی حیران ہوں گے کہ یہ کام مکمل کروانے والے سولین وزیراعظم فیروز خان نون کی ایک ماہ بعد چھٹی کروا دی گئی تھی۔ گوادر کے علاقے شامل ہونے سے بلوچستان کا رقبہ توبڑھا لیکن تب سے اب تک صوبائی دارالحکومت صرف کوئٹہ ہی ہے۔ اور یہ بات تو پہلے بتائی جاچکی ہے کہ گوادر سے صوبائی دارالحکوت کوئٹہ ایک ہزار کلومیٹر ہے۔ پچاس کی دہائی میں تو اس علاقے میں سفر بھی اونٹوں پر ہوتا تھا۔ اس سے آپ عوامی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اضلاع کی تعداد پاکستان میں بڑھ کر ضرور 154 ہوگئی۔ یہ ضلعی انتظام صرف روز مرہ کے امور چلانے کے لئے ہے۔ مالی انتظامی اور قانونی اختیار ضلع کے پاس نہیں ہوتے۔ لہذا صوبے میں ضلعی تعداد بڑھاتے چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اختیارات کا ارتکاز شروع سے ہی مسلمانوں کا پسندیدہ شعار رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں گلگت، بلتستان کو صوبائی سطح کے اختیارات دے کر ایک اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔ فاٹا کے بدنصیب لوگوں کی بھی بہت دیر بعد سنی گئی اور انہیں صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرکے ان کی قبائلی حیثیت ختم کردی گئی وہ اب مکمل پاکستانی بن گئے ہیں۔

اس صوبے کا رقبہ بھی اب بڑھ گیا ہے۔ اب اس صوبے کی لمبائی کے ساتھ ساتھ چوڑائی بھی نظر آنے لگی ہے۔ صوبوں کی تعداد بڑھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ قومی سطح پر ایک با اختیار کمیشن بنایا جائے۔ یہ کمیشن مسٔلہ کا ہر پہلو سے جائزہ لے۔ صوبائی مراکز عوام کی پہنچ سے دور نہ ہوں وہ آسانی سے اپنے مسائل اور اپنی آواز صوبائی محکموں کے سربراہوں اور وزراء تک پہنچا سکیں۔ صوبوں کی تعداد بڑھانے سے مالیات کا بڑا مسٔلہ پیداہوگا۔

کمیشن یہ طے کرے کہ موجودہ صوبوں کے وسائل کا کتنا کتنا حصہ نئے بننے والے صوبوں کو ملے گا۔ مرکز کتنا حصہ ڈالے گا۔ نئے بننے والے صوبے پہلے سال تقسیم شدہ مالیات سے ہی چلیں گے۔ اس کے بعد وہ اپنے مالیات خود اکٹھا کرنا شروع کریں گے۔ نئے صوبوں کے مراکز سے اپنے باقی علاقوں اورشہروں پر اچھی حکمرانی ہوسکے گی؟ ان تمام باتوں کا کمیشن پہلے ہی جائزہ لے۔ کمیشن یہ دیکھے کہ نئے صوبوں کو چلانے کے لئے بیوروکریسی کہاں سے آئے گی؟

اس کے لئے کئی سالوں کی تیاری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ تمام کام کمیشن اپنے مطالعہ میں پہلے ہی طے کرے۔ اورپھرمحکوں کی بلڈنگز۔ اس میں بھی وقت درکار ہوگا۔ قرضوں میں ڈوبی ہوئی مرکزی حکومت شاید نئے صوبوں کو مالیات فراہم نہ کرسکے۔ مسٔلہ کا حل دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک نئے صوبے بنائے جائیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کردیئے جائیں۔ نچلی سطح میں کمشتری بھی آتی ہے اور ضلع بھی۔ دونوں تجاویز کے اپنے فوائد اور نقائص ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات بڑھ گئے ہیں۔ تعلیم اورصحت جیسے اہم شعبے بھی اب صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ ٹیکس لگانے کے کافی اختیارات بھی صوبوں کے پاس کافی آگئے ہیں۔ نئے اورمکمل اختیارات کے حامل صوبے ہی مسٔلہ کا مکمل حل ہے۔ اس طرح دور دراز علاقوں اور شہروں کی ترقی کی امید پیدا ہوجائے گی۔ یہ شکایت نہ رہے گی کہ پنجاب کے فنڈز لاہور اور جی۔ ٹی۔ روڈ کے ارد گرد کے علاقوں میں ہی لگتے رہتے ہیں۔ باہر سے لئے ہوئے قرض بھی موجودہ صوبائی دارالحکومتوں میں خرچ ہوتے نظر آتے ہیں۔

نئے صوبے جب اپنے اضلاع اور شہروں پر خرچ کریں گے تو واقعی تبدیلی محسوس ہوگی۔ چھوٹے چھوٹے صوبوں کے لوگ اپنے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لئے پلاننگ کریں گے اور فنڈز کی منظوری دیں گے۔ خرچ صوبائی نمائندوں کے سامنے ہی ہورہا ہوگا۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام صحیح چل سکے گا۔ کچھ لوگوں کی یہ تجویز ہے کہ موجودہ کمشنریوں کو ہی مکمل صوبائی اختیارات دے دیے جائیں۔ اس وقت پاکستان میں کمشنریوں کی تعداد 30 ہے۔ لیکن فوری طورپر 30۔

صوبائی مراکزکے اخراجات برداشت کرنا بہت مشکل ہوگا۔ لیکن پاکستان کی موجودہ 22 کروڑ۔ کی آبادی اور علاقے کو دیکھا جائے تو تعداد زیادہ نہ ہے۔ بہت سے دیگر لوگ فی الحال چاہتے ہیں کہ پنجاب کو 3 صوبوں، جنوبی، وسطی اور شمالی میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس طرح ملتان لاہور اور راولپنڈی دارالحکومت قرار پاتے ہیں۔ سندھ کی آبادی بھی اب 5 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا 2 صوبوں میں تقسیم ہونا انتظامی لہاظ سے سہولتیں پیداکرے گا۔

ایک صوبائی صدرمقام تو کراچی پہلے ہی ہے۔ دوسرا صدرمقام ایسے شہر میں ہو جہاں سے گھوٹکی، جیکب آباد اور کشمور بہت دور نہ ہو۔ پانچ کروڑ آبادی کا ایک صوبہ اور بڑا علاقہ اب بھی عوام کے لئے دشواریاں پیدا کرتا ہے۔ ایسے ہی بلوچستان کو بھی 2۔ صوبوں میں تقسیم کرنے سے عوام کو سہولت حاصل ہوگی۔ گوادر سے کوئٹہ کا ایک ہزار کلومیٹر کا دشوار سفر کم ہونا ضروری ہے۔ نیا صوبائی دارالحکومت گوادر، آواران اور پنجگور سے قریب ہونا چاہیے۔

یہ صوبائی دارالحکومت خضدار بھی ہوسکتا ہے۔ جو پہلے ہی ڈویژنل ہیڈ کواٹر ہے۔ صوبہ بلوچستان کی آبادی اب سوا کروڑ کے قریب ہوچکی ہے۔ لیکن آبادیاں بہت دور دور ہیں۔ رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ 2۔ صوبے بننے سے مسائل آسانی سے حل ہوتے رہیں گے۔ فاٹا کے انضمام کے بعد اب صوبہ خیبرپختونخواہ کا رقبہ بھی بڑھ چکا ہے۔ اسے بھی 2 با اختیار صوبوں میں تقسیم کردینا چاہیے۔ صوبے کے جنوبی اضلاع کو نئے صوبے میں شامل کر دیا جائے۔

ایسے شہر کونئے صوبائی مرکز کا درجہ دیا جائے جہاں پہلے ہی کافی سہولیات موجود ہوں۔ ان تجاویز کا مقصد اچھی حکمرانی، عوام کے مسائل کا تیزی سے حل خاص طورپر تعلیم اور صحت کی سہولیات کی زیادہ سے زیادہ فراہمی ہے۔ قومی کمیشن تفصیلی مطالعہ کرے۔ تعصبات سے پاک مطالعہ۔ انتظامی نقطہ نظر سے صوبہ چلانا آسان ہو۔ صوبہ کے قیام کے بعد کیا صوبہ اپنی ضرورت کی آمدنی خود پیداکر سکتا ہے۔ یہ آخری بات سب سے اہم ہے۔ اسی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلیوں میں قرار دادیں لائی جائیں۔ یہاں سے پھر مسٔلہ پارلیمنٹ میں جائے اور عوامی سہولت کا یہ بل بذریعہ آئینی ترمیم پاس ہوجائے۔ بڑے صوبوں کو چھوٹے صوبوں میں تبدیل کرنا اب پاکستان کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).