ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے


اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے، ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ افغانستان میں دنیا کی دوسری سپر پاور کو بھی دھول چٹا دی ہے۔ امریکی جو وائسرئے بنے ملک کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے، طالبان سے بات چیت کیلئے آئے روز ترلے کرتے ہیں۔ ابھی پانچ دن نہیں گزرے، خصوصی امریکی ایلیچی اجازت لے کر راولپنڈی آیا۔ مصروفیت کے سخت شیڈول میں ایک گھنٹہ مختص کیا۔ ملاقات کے بعد دوہا قطر میں طالبان امن مذاکرات پر راضی ہوئے۔ فیصلہ ہو گیا تو ہو گیا، اس ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔ آصف علی زرداری بھی پیسے دے گا اور شریف خاندان بھی۔ علیمہ خان کی پراپرٹی کا ایک حصہ ایمسٹی اسکیم میں سفید ہو چکا ہے اس لئے قانونی ہے۔ چوہدری برادران کو بحریہ ٹاون سے جو اراضی ملی یا ان کے 48 ہزار ماہانہ تنخواہ کے ملازم نے متعدد پلاٹ خریدے تو وہ کمیٹیاں ڈالی ہوئی تھیں اور ملازم کی خریداری کا مالک سے کیا تعلق۔ آصف علی زرداری کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فالودے والے کے اکاوئنٹس میں کروڑوں روپیہ آ جائیں۔ جہانگر ترین بھی بھلا آدمی ہے۔ اس کے ملازم کے نام اراضی ہو تو خیر ہے قومی خزانہ تو محفوظ ہے ناں۔

خیبر پختونخواہ میں امریکی شہری نوشیروان برکی کے تصوارت کے عین مطابق ایم ٹی آئی اصلاحات بل منظور کرا لیا۔ اپنے بچے کا کزن جو ہوا، خیال تو کرنا پڑے گا۔ جس پرنسپل کی تنخواہ سات لاکھ ماہانہ تک تھی اس کی جگہ ڈائریکٹر مقرر ہو گئے اور تنخواہ بھی چالیس لاکھ ماہانہ تک پہنچ گئی۔ عوام کے ٹیکسوں سے عوام کو صحت کی سہولیات بھی ملیں گی لیکن تمام ٹیسٹوں کے پیسے دینا ہونگے اور بورڈ آف گورنر بھلے شوکت خانم سے ڈاکٹر اور طبی عملہ بھاری تنخواہوں پر حاصل کر لے اور جونیر ڈاکٹر کو سئینر کا انچارج بنا دیا جائے۔ بورڈ آف گورنر بھلے سرکاری ہسپتال میں پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دے دے، ہسپتال تو شام کو ویسے ہی مریضوں سے خالی ہوتے ہیں۔ قومی خزانے کو تو نقصان نہیں ہوا۔ پنجاب میں بھی صحت کے شعبہ پر بہت اخراجات ہوتے ہیں۔ یہاں تو نجکاری ہی مسئلہ کا حل ہے۔ شریف برادران نے کرپشن کی تھی اور ڈیل پر بھی راضی نہیں، اس لئے یہی حکومت چلے گی بلکہ دوڑے گی۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عین قومی مفاد میں ہے۔ برآمدات میں پہلے کونسا اضافہ ہو رہا تھا۔ اگر برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور مقامی ساختہ پیداوار بھی مہنگی ہو جاتی ہے، خیر ہے ملک تو محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ملکی سالمیت اور جغرافیائی سرحدوں پر آنچ نہیں آئے گی۔ ملک کے اندر اگر مہنگائی آجائے تو اندرونی مسئلہ ہے، طے کر لیا جائے گا۔ ملک کی آبادی پہلے ہی ملکی وسائل سے زیادہ ہے۔ ابھی تو غربت اور بے روزگاری یا مہنگائی کی وجہ سے جرائم اور بہنوں، بھائیوں، بچوں اور بیویوں کے قتل میں معمولی اضافہ ہوا ہے، مسائل جلد حل ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ آ گئے ہیں ناں، بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود میں مزید اضافہ کریں گے۔ لوگوں کو کاروبار نہیں کرنا چاہیے۔ اتنی زیادہ شرح سود تو کر دی ہے، بینکوں میں پیسے رکھیں اور سود کھائیں۔ نہ کوئی خطرہ نہ پیسے ڈوبنے کا ڈر۔ کاروبار میں تو عام طور پر فراڈ ہوتا ہے اور اکثر سارے پیسے ڈوب جاتے ہیں۔ عدالتوں میں پہلے ہی مقدمات کی اتنی بھرمار ہے۔ اصل مقدمات تو سیاست والے ہوتے ہیں جہاں وزیراعظم کو پھانسی ملتی ہے، وزیراعظم توہین عدالت میں فارغ ہوتے ہیں۔ وزیراعظم بلیک لا ڈکشنری کی تعریف کے تحت بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہل قرار پاتے ہیں۔ سسلین مافیا کا اس ملک میں کیا کام؟ اسی لئے تو سیاست کے مقدمات اولین ترجیح ہوتے ہیں اور وقت کی پابندی لگا کر ان کے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔ مارشل لا کی بات اور ہے۔ وہاں جب پی سی او کا حلف لے لیا تو وہ حلف شرارت نہ کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ اس لئے فوجی سربراہ آرام اور اطمینان سے کم از کم دس سال تو پورا کرتے ہی ہیں۔

جس کے پاس پیسے ہیں، انہیں کوئی ضرورت نہیں دوسرے لوگوں کو روزگار دینے کی۔ دیکھتے نہیں روپیہ کی قیمت کتنی کم کر دی ہے۔ کیوں نہیں ڈالر خریدتے اور سونے کے بسکٹ بھی۔ کیا انہیں نظر نہیں آتا ڈالر خریدنا اور سونے کے بسکٹ خریدنا نفع ہی نفع ہے۔ کاروبار کریں گے تو ایف بی آر ہے ناں اور نیب بھی تو موجود ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ بہت سمجھدار معاشی ماسٹر ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ایسے ویسے تو پسند نہیں کرتے۔ کوئی نہ کوئی ہنر تو موجود ہے اس عظیم آدمی میں۔ دیکھ لینا کبھی بھی نان فائلر پر پلاٹ خریدنے کی شرط ختم نہیں کرے گا۔ سرمایہ کار پلاٹ ہی خریدتے رہتے تھے اور بیچتے رہتے تھے۔ منافع مارکیٹ میں آتا تھا روپیہ سے روپیہ بنتا تھا اور لوگ امیر ہو جاتے تھے، اور پھر امیر ہو کر ضرور برائیاں کرتے تھے۔ اس لئے ایسا کام کیا ہے، پلاٹوں کی قمیتیں پچاس فیصد گر گئی ہیں، اب لوگ برائیاں نہیں کرتے، پریشان رہتے ہیں اور ادھار مانگتے ہیں۔ لوگوں کو ادھار مانگنا چاہیے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ حکومت بھی تو عالمی مالیاتی اداروں سےا دھار مانگ رہی ہے۔

نہ کارخانے چلانے ہیں اور نہ کاروبار، اس سے ملک میں افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ دیکھتے نہیں حصص بازار میں کتنے ٹیکس لگا دئے ہیں تاکہ سرمایہ کار بھاگ جائیں اور توقع کے عین مطابق سرمایہ کار تو بھاگے ہی ہیں، بروکرز بھی فرار ہو گئے ہیں۔ کل امریکی افغانستان سے واپس چلے جائیں گے، خزانے میں پہلے ہی پیسے نہیں۔ دنیا خود ہی بچانے آئے گی اتنی بڑی فوجی قوت اور ایٹمی طاقت اور پھر چینیوں کے بھی تو پچاس ارب ڈالر لگوا دئے ہیں، کتنی دیر نارض رہیں گے چھوٹے قد والے چینی۔ ہم نے تو روسیوں اور امریکیوں کی بین بجا دی۔ یہ چینی کیا بیچتے ہیں، جلد ناراضگی ختم کر دیں گے اور پھر سب چین سے ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).