کم سنی کی شادی اور اس سے متعلق قانون سازی


گزشتہ دنوں سے جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ ہے کم سنی کی شادی اور اس سے متعلق قانون سازی؟

مسئلہ حقیقت پسند اور مسلمہ ہے مگر اس کے حل کی کسی بھی تجویز سے قبل اگر اس معاملے کے سیاق و سباق کو سمجھ لیا جائے تو معاشرتی بحث کافی حد تک سمٹ سکتی ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ کم سنی کی شادیاں مسائل اور الجھنوں کا باعث بنتی ہیں سو شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال ہونی چاہیے۔ جو کہ ایک قانون کی صورت میں نافذالعمل کی جائے۔ جبکہ علما ء کرام اور فقہاء کے نزدیک یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی حل کرنا چاہیے۔ جو کہ عین مناسب اور درست موقف ہے۔ لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ علماء کرام کو بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں بلوغت کو صرف جسمانی بلوغت پر ہی موقوف نہیں کر دینا چاہیے بلکہ مکمل حالات، موسمی تغیرات اور معاشرتی حقائق کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کیونکہ اسلام نے اس معاملے کو کسی قانون کی شکل میں نافذ نہیں کیا بلکہ احسن فعل قرار دے کر معاشرتی پس منظر سے مشروط کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کافی حد تک ہمارے علما ء کے نزدیک یہ طے ہے کہ اسلام کم سنی کی شادی کے حق میں ہے۔

اس ضمن میں کسی بھی موقف کو قانونی رنگ دینے سے پہلے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے شادی کو سمجھا جائے کہ شادی ہے کیا؟ اگرانسان اور حیوان میں امتیازی فرق تلاش کیا جائے تو شادی ان میں سے ایک ہے۔ انسان ہوں یا حیوان دونوں کو اپنی نسل بڑھانے کی فطری ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مگر انسان کو ممتاز اسی لئے رکھا گیا ہے کہ وہ نہ صرف نسل کو بڑھانے کا کام کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی اولاد کی مکمل پرورش اور تربیت کا ذمہ دار بھی بنتا ہے۔ یعنی کسی کا بچہ اگر معاشرے میں فساد یا کسی بھی قسم کے بگاڑ کی وجہ بنتا ہے تو لا محالہ اس کے والدین کی تربیت پر انگلیاں اٹھیں گی۔ خود اسلام بھی اگر نیک اولاد کو صدقہ جاریہ قرار دیتا ہے تو کیا بد اولاد کے معاملے میں وہ والدین کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے؟ یقیناً نہیں۔

آنے والے ہر نئے دور اور زمانے کی بنیادی اکائی ہمارے آج کے بچے ہیں۔ جس قسم کے بچے ہوں گے معاشرہ ویسے ہی رنگ میں رنگا جائے گا۔ تربیت یافتہ، با اخلاق اور با تہذیب بچے آپ کے آنے والے معاشرے کی خوبصورتی کی گواہی دے رہے ہوں گے اور اس کے برعکس خود رو پودوں کی طرح پلتے برہتے بچوں سے کسی اچھے مستقبل کی توقع رکھنا چلملاتی دھوپ میں بارش کی توقع کے مترادف ہی ہے۔ اسی طرح اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم سنی کی شادی میں کوئی قباحت نہیں اگر یہ کم سنی عمر کی بلوغت پر ہی اکتفا نہ کرتی ہو بلکہ ذہنی بالیدگی اور ذمہ دارانہ سوچ کی بھی حامل ہو۔

جب شادی شدہ جوڑا مذہبی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہو اور اپنی اولاد کے ہر اچھے برے فعل کو قسمت پر ڈالنے کی بجائے اپنی کوتاہی اور عاقبت نااندیشی کا اعتراف کرنے کی ہمت رکھتا ہوتو یقیناً وہ لائق شادی کہلائے گا۔ ورنہ عمر کے بڑھنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنا جب کسی بھکارن کے بچے نے بھیک ہی مانگنی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی ماں دس سے پندرہ سال کی کوئی بچی ہے یا پچیس سال کی لڑکی۔

اسلام آفاقی مذہب اور قیامت تک کے انسانوں کے لئے راہ ہدایت ہے۔ اسلام بھی اہل لوگوں پر ذمہ داریاں ڈالنے اور امانتیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یعنی اگر کوئی اہل نہیں تو اس پر وہ ذمہ داری ڈالنا سراسر غیر اسلامی فعل ہے جس کو مذہب کی چادر میں لپیٹنے کی کوشش آج کے علماء کر بھی رہے ہیں۔ شادی ضرور کریں اور جلد از جلد کریں لیکن سب سے پہلے اس بات کا یقین کر لیں کہ جن افراد کی شادی کی جارہی ہے کیا وہ اس اہلیت کے حقدار ہیں بھی کہ نہیں؟

یہ عذر بھی تسلیم ہے کہ دیر سے شادیاں معاشرتی اور جنسی بے راہ روی کو جنم دیتی ہیں مگر معذرت کے ساتھ پورے معاشرے سے اک سوال ہے کہ اگرپانچویں سے نویں جماعت کے بچے اگر جنسی بے راہ روی کی مرتکب ہو جائیں تو کیا اس کی وجہ بھی دیر سے شادی کرنا ہے یا کچھ اور؟

اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر آج کے دور میں جنسی بے راہ روی کا شکار ہماری یہ نوخیز نسل ہی ہے جو سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی آڑ میں گھروں سے نکل کر راستے بھٹکتی پھر رہی ہے۔

یقیناً اس بدحالی کی وجہ ان بچوں بچیوں کی دیر سے شادی نہیں بلکہ کسی حد تک ان کے والدین کی کم عمری میں یا کم عقلی کی عمر میں شادی ہے۔ جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ بچے ماں باپ کی غیر ذمہ دارانہ تربیت اور ناپختہ فہم وفراست کا شکار ہو گئے۔ کیونکہ جن افراد نے ان بچوں کو اچھا برا سمجھانا تھا وہ خود ہی اچھے برے کی تمیز سے لاعلم رہے تو اپنے بچوں کو سمجھاتے بھی تو کیا؟ آج کی بے راہ روی کی وجہ آج کے بچے نہیں بلکہ گزشتہ کل کے بچے ہیں جو خود بھی غیر تربیت یافتہ رہے اور اپنی اولاد کو بھی تربیت دینے سے قاصر ہیں۔

اگر ہمیں آنے والے کل کو محفوظ اور معقول بنانا ہے تواپنی آج کی نسل پر توجہ دینا ہوگی اور ان کی شادیوں سے قبل ان کی تربیت کی فکر کرنی ہوگی۔ ماں باپ کے درجے پر پہنچنے سے قبل ان کو ماں باپ کے حقوق اور فرائض کو سمجھنا ہوگا ہم میں سے کتنے ایسے والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو بتایا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ بطور ایک باپ کے یا شوہر کے کیسے تھے اور اسلام ہم سے کیا طلب کرتا ہے؟ بحث کو سمیٹنے کے لئے ایک حدیث کا مفہوم بیان کردوں کہ ”باپ اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دیتا ہے وہ ان کی اچھی تربیت ہے۔ “ (ترمذی) ۔ یعنی وقت پر شادی شاید ایک احسن تحفہ ہو مگر تربیت کو بہترین تحفہ کہا گیا ہے سو ہمیں پہلے اس پر توجہ دینی ہے۔

کیا ہی احسن ہو! اگر ہمارے علماء اور حکومت ِوقت میں شادی کی کم سے کم عمر کے قانون کی بحث کی بجائے اچھی تربیت اور والدین کی ذمہ داریوں سے متعلق قوانین وضع کیے جائیں کہ اگر کوئی بچہ غیر تعلیم یافتہ رہ گیا تو اس کے ماں باپ قصوروار کہلائیں گے۔ اسی طرح چائلڈ لیبر اور کم عمری کی جنسی بے راہ روی کے قصور وار بھی والدین ہی ٹھہرائے جائیں گے تو شاید کسی کو بھی اعتراض نہ ہو کہ شادی کس عمر میں ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).