پنجاب کی تباہی میں خالصہ فوج کا کردار (تیسرا حصہ)


جواہر سنگھ، عطر سنگھ کالیاوالا اور شام سنگھ اٹاری والا فوجیں لے کر ہیرا سنگھ ڈوگرا کے پیچھے لپکے۔ انھوں نے لاہور سے 7 میل کے فاصلے پر ہیرا سنگھ کو جا گھیرا۔ کافی خون ریز لڑائی ہوئی۔ ہیرا سنگھ، پنڈت جلاّ، میاں موہن سنگھ، لابھ سنگھ ڈوگرا بہت سے ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ راجا ہیرا سنگھ کے مرنے کے بعد مہارانی جند کور نے اپنے بڑے بھائی جواہر سنگھ کو پنجاب کا وزیر بنا۔

جموں کے گورنر راجا گلاب سنگھ نے مالیہ نہیں پہنچایا تھا۔ جواہر سنگھ نے مالیہ وصول کرنے کے لیے فوج بھیجی۔ فوج نے پہنچتے ہی جموں کو گھیرے میں لے لیا۔ گلاب سنگھ نے صلح کی درخواست کی اور 25 لاکھ ہرجانہ اور مالیہ دینا منظور کیا۔ جب صلح کے بعد ’فتح سنگھ‘ اپنے سپاہیوں سمیت اپنے خیمے کی طرف واپس آ رہا تھا تو ڈوگرا فوج نے اسے دھوکے کے ساتھ گھیر کر قتل کر دیا۔ خالصہ فوج نے فتح سنگھ کے قتل کے بعد جموں پر حملہ کر دیا۔ تین دن لڑائی جاری رہی۔ گلاب سنگھ نے جرمانہ دینا منظور کر کے فوج سے صلح کی اپیل کی۔ خالصہ فوج اسے گرفتار کر کے لاہور کی طرف چل پڑی۔

گلاب سنگھ نے راستے میں عیاری سے کام لیتے ہوئے کچھ فوج کو اپنا طرف دار بنا لیا۔ راوی کے نزدیک پہنچنے پر فوج میں دو دھڑے بن چکے تھے۔ ایک دھڑا گلاب سنگھ اور سیوا سنگھ مجیٹھیا کا۔ دوسرا دھڑا لال سنگھ کے ماتحت۔ اس دوسرے دھڑے میں کنور پشورا سنگھ آ ملا۔ جواہر سنگھ نے دوسرے دھڑے کی مدد کے لیے فوج بھیجی۔ لیکن خالصہ فوج کے ’فوجی پنچوں‘ نے آگے بڑھ کر بیچ بچاؤ کیا۔ گلاب سنگھ نے لاہور دربار کو 68 لاکھ سالانہ دینا منظور کیا وہ بھی اس صورت میں کہ ڈوگروں کی تمام جاگیریں بحال کی جائیں۔ اس صلح کے کچھ دن بعد گلاب سنگھ جموں واپس چلا گیا۔

کنور پشورا سنگھ نے تنخواہ میں اضافے کا لالچ دے کر کچھ فوج کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ کچھ ’فوجی پنچوں‘ نے بھی اسے راج کا اصل حقدار تسلیم کر لیا۔ مہارانی جند کور نے دانائی سے کام لیتے ہوئے اسے لاہور بلوایا۔ مہاراجا دلیپ سنگھ کی مانند ہی اس کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ یہ دیکھ کر جواہر سنگھ جل اٹھا۔ اس کی تنی ہوئی آنکھیں دیکھ کر پشورا سنگھ فوج کے پاس پہنچا۔ لیکن جواہر سنگھ نے انعام دے کر فوجی پنچوں کو پہلے ہی اپنے حق میں جھکا لیا تھا۔ فوجی پنچوں نے کنور پشورا سنگھ کو لاہور دربار کی طرف سے تحفے تحائف اور جاگیر میں اضافے کا یقین دلوا کر واپس سیالکوٹ بھیج دیا۔

ستمبر 1844 کو ملتان کا گورنر دیوان ساون مل ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس کی جگہ اس کا بھائی دیوان مول راج ملتان کا گورنر بنا۔ ہیرا سنگھ کے مرنے کے بعد وہ لاہور دربار سے سرکش ہو گیا۔ جواہر سنگھ نے فوج بھیج کر اس سے 18 لاکھ روپیہ وصول کیا۔ اب پورے پنجاب پر جواہر سنگھ کا تسلط تھا۔ ادھر گلاب سنگھ نے کنور پشورا سنگھ کو اکسانا شروع کیا کہ وہ فوج کی مدد سے تخت حاصل کر سکتا ہے۔ اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے پشورا سنگھ نے سیالکوٹ میں غدر مچا دیا۔ جواہر سنگھ نے اس بلوے کو دبانے کے لیے فوج بھیجی۔ گلاب سنگھ سیالکوٹ میں ہی تھا۔ اس بلوے پر قابو پا لیا گیا۔ اسے ایک اور شرارت سوجھی۔ اس نے فوج سے جموں جانے کی اجازت لی۔

جموں پہنچ کر اس نے انگریزوں نی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ یہ یقین دلایا کہ اگر انگریز اسے شمال مشرقی صوبوں کا خودمختار مہاراجا تسلیم کریں تو وہ انھیں لاہور پر قبضہ کرنے میں مدد دے گا۔ پشورا سنگھ نے اٹک پہنچ کر قلعے پر قبضہ کر کے پنجاب کا مہاراجا ہونے کا اعلان کر دیا۔ کابل کے حاکم دوست محمد خان سے خط و کتابت شروع کی۔ علاقے کی کچھ فوجیں بھی اس کے ساتھ آن ملیں۔ جواہر سنگھ کے بھیجے ہوئے ’فتح خان ٹوانہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے، ’چتر سنگھ اٹاری‘ ہزارے سے فوج لے کر پہنچے۔ صلح کی بات چیت ہوئی اور پشورا سنگھ نے قلعہ خالی کر دیا۔

اگلے دن تینوں (فتح خان، چتر سنگھ، کنور پشورا سنگھ) فوج سمیت لاہور کی جانب چل پڑے۔ راستے میں گرودوارہ ’پنجا صاحب‘ کی زیارت کے لیے رکے۔ وہیں رات کو سوتے ہوئے کنور پشورا سنگھ کو باندھ لیا گیا اور اٹک قلعے کے کالے برج میں لے جا کر قید کر دیا گیا۔ جواہر سنگھ نے حکم بھیجا کہ جلد سے جلد کنور پشورا سنگھ کو قتل کر دیا جائے۔ 30 اگست 1845 کو 22 سال کی عمر میں کنور پشورا سنگھ کو قتل کر دیا اور لاش دریا میں بہا دی۔ پشورا سنگھ کی موت کی خبر سن کر فوجیں جواہر سنگھ کے خلاف بھڑک اٹھیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2