روبوٹ چوہے، میڈیا اور عوام


ایک نجی ٹی وی چینل میں پی پی پی کے سابقہ ایم۔ پی۔ اے جناب سردار نبیل گبول صاحب فرما رہے تھے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے پارلیمنٹ لاجز میں، مختلف ارکانِ اسمبلی کے کمروں میں روبوٹ چوہے چھوڑرکھے ہیں تاکہ اُنھیں اپوزیشن کے خفیہ منصوبوں یا ارادوں کے بارے میں تازہ ترین خبریں ملتی رہیں۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ایک سیکرٹری ان کا لگایا ہوا تھا بلکہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ وہ سیکرٹری ان کاٹاؤٹ ہے۔ اسی پروگرام میں رانا ثنا اللہ بھی براجمان تھے اور نبیل گبول فرما رہے تھے کہ رانا صاحب کے کمرے میں بھی روبوٹ چوہے چھوڑے گئے ہیں۔

جس پر رانا صاحب نے لقمہ دیا کہ عمران خان صاحب کی حکومت تو خفیہ ایجنٹوں کی خبر رسانی پہ ہی چل رہی ہے۔ یوں تو ہم حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئے یعنی ہم خواہ مخواہ ہی ملک کی بدحالی کا رونا روتے ہیں بلکہ ہم تو بہت ترقی یافتہ ہوچکے ہیں اور ایڈوانسڈ بھی کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں روبوٹ چوہوں کے استعمال کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب ہم بھی ترقی کی دوڑ میں جاپان کے ساتھ ملنے ہی والے ہیں۔ جاپان میں روبوٹس وہاں کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔

روبوٹس ہی وہاں گروسری خریدتے ہیں، شادیوں کے انتظامات بجا لاتے ہیں اور لوگوں کی تنہائی بانٹتے ہیں۔ اب سائنس دانوں نے ایک نئی مخلوق تخلیق کی ہے جو آدھی چوہے اور آدھی روبوٹس پر مشتمل ہے۔ اس دونسلی روبوٹس کو کمپیوٹر کنٹرول کرتا ہے جس میں ریڈیائی اور حیاتیاتی دونوں عناصر پائے جاتے ہیں۔ حیاتیاتی عناصر خالصتاً چوہوں کے نیورونز ہیں جو کمپیوٹر کی چِپ سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ بازی گری پہلی مرتبہ جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سٹیو پَوٹر نے انجام دی۔

چوہوں کے دماغ سے نیورون لیے جاتے ہیں جو ایک سیلیکون چِپ سے جڑے ہوتے ہیں جس پہ ساٹھ electrodesہوتے ہیں اور وہ سیلیکون چِپ ایمپلی فائر سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ electrodesبرقیاتی اشاروں سے جُڑجانے کے بعد کمپیوٹر میں منتقل ہوجاتے ہیں اور یوں کمپیوٹر جواب میں وہ ساری باتیں، وہ سارا ڈیٹا جو اس روبوٹ چوہے میں جمع ہورہا ہوتا ہے متعلقہ ذرائع تک منتقل کردیتا ہے۔ حضور! یہ تھے وہ طریقے جو ذرائعوں تک پہنچتے ہیں یا پہنچائے جاتے ہیں اب کچھ بات کرلیتے ہیں چوہوں کی۔

چوہا کترنے والا وہ چھوٹا سا جانور ہے جو عام طور پر کھیتوں اور گھروں میں پایا جاتا ہے۔ بلیاں، جنگلی کتے، بھیڑیے، شکاری پرندے اور سانپ وغیرہ چوہوں کا شکار کرنے کے ماہر ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری سیاست میں بھی بہت سے چوہے ہیں جو خطرے کو بھانپ کر اپنے وڈیروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ چوہوں کی طرح ان کی بینائی بھی کمزور ہوتی ہے کیونکہ یہ اپنے سرداروں کی بُرائیاں دیکھ نہیں سکتے۔ لیکن سننے اور سونگھنے کی تیز حس سے فوراً خطرے کی بُو کو سونگھ کر اپنے سردار کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز کام سرانجام دیتے ہیں۔

باس چاہے موجود ہو یا نہ ہواس کی پوری تائید کی جاتی ہے بلکہ ان کی ہر چوری چکاری کی برملا صفائی دی جاتی ہے۔ ان کے لیے قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ ان کی قبل از وقت ضمانتوں کی اطلاعیں پہنچا کر عدالتوں کی توہین کی جاتی ہے۔ چوہوں کی طرح ان کی بھی پیچیدہ اور لمبی بِلیں ہوتی ہیں جو بوقت ِ ضرورت اُوپر تلے پارٹیاں بدلنے کے فوری طور پر کام آتی ہیں۔ یہ بِلیں اصل میں بچاؤ اور گھاؤ کے لیے تعمیری امتیازی وصف کے طور پر ڈھال بن جاتی ہیں۔

جہاں کہیں بھی کبھی بھی احتساب کی بات ہو مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب تک وطنِ عزیز سے یہ اندرونی منفی رویے ختم نہیں ہوجاتے ملک سیدھی پٹڑی پر کیسے چلے گا؟ جب سب سیاست دان، صوفی، علما، دانش ور، سرکاری افسران اور مختلف عہدے داران اگر اپنے اپنے گھروں سے صرف اور صرف سچائی کی تلاش میں نکلے ہوتے تو کیا ہم اس منزل کو نہ پاچکے ہوتے جس کی ہمیں بحیثیت ِقوم تلاش تھی۔ اب بات کرتے ہیں کچھ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کی۔

اگر اس کا مثبت استعمال ہوتو پھر تو ”ستے ای خیراں“ لیکن وہیں اس کا منفی استعمال اسے مصنوعی ضروریات کی طرف لے جاتا ہے۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ سوشل میڈیا کا منفی استعمال سچائی پہ مبنی معلومات قائم کرنے اور اس کی ترجیحات بنانے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ دوسری طرف یہ علم سے دُوری پیدا کرتا ہے۔ میڈیا پہ ہر صورت یہ ذمہ داری لاگو ہوتی ہے کہ وہ ہر طرح سے صرف اور صرف سچائی پہ مبنی خبریں عوام تک بہم پہنچائے۔

دیکھنا یہ ہے کہ میڈیا کی آزادی میں کہیں ہم اپنی تہذیب اور روایتوں کو زِک تو نہیں پہنچا رہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے سوشل میڈیا نے سیاسی منظروں اور ابلاغ کو نہایت تیزی سے بدل کے رکھ دیا ہے۔ سیاسی ادارے جن میں سیاست دان، سیاسی پارٹیاں، سیاسی میٹگنز اور سیاسی تھِنک ٹینکس وغیرہ ٹویٹر، فیس بُک، واٹس ایپ اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم بے دھڑک اور بے لاگ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی پنڈت اپنی آرا کا اظہار کُھلے بندوں کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ہر فورم پہ سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع سیاست ہی ہوتا ہے۔ یہ عوام کے احساس و ادراک کو اپنی سازشوں کے ذریعے اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔ جمہوریت بھی اس کی روش سے متاثر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کا اُردو معنی سماجی ذریعہ ابلاغ ہے اور سماجی ذمہ داری یہ ہے کہ سماج کی بہت سی صورتوں میں مختلف قانون وضع کرنا لیکن بد قسمتی سے صرف اور صرف حکومت میں بدنیتی اور ملکیت کے قوانین وغیرہ وضع ہوتے ہیں۔ افواہوں کا گھڑنا مانوایک رواج کی صورت قائم ہوگیا ہے۔

سماجی ذرائع ابلاغ کے یہ سارے پلیٹ فارم تو مہذب ممالک کے مہذب لوگوں کے لیے بنائے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے بدکردار لوگوں کے ہاتھوں میں اس کی ڈور آگئی اب لگے پُتلیاں گُھمانے۔ خیر یہ موضوع تو بے پناہ لمبا ہے جتنا بھی لکھو، جتنی بھی بات کرو کم ہے۔ واپس آتے ہیں اس ملک کے ستائے ہوئے ستم رسیدہ لوگوں کی نادیدہ خواہشوں کی طرف جن کی زندگیاں انتظار میں ہی نہ کٹ جائیں۔ تحریک ِ انصاف او ر عمران خان اُن کے لیے نجات دہندہ بن کر آیا تھا۔

کرپشن سے پاک نظام کا نعرہ لگایا تھا۔ اب وہ سب لوگ حسرت بھری نگاہوں سے عمران خان صاحب کی طرف سے سکھ کے اعلان کے منتظر ہیں۔ ظاہر ہے حکومت کے پاس ”فیری گاڈ مدر“ تو ہے نہیں جو جادو کی چھڑی گھمائے گی اور سب منٹوں میں ٹھیک ہوجائے گا۔ بس التجا اتنی سی ہے کہ اس نسل کے خواب ٹوٹنے نہیں چاہئیں۔ اُدھر ن لیگ میں بڑے پیمانے پہ اختلافات کی خبریں بھی منظرِ عام پہ ہیں۔ بڑے عہدوں پہ دستبرداریاں بھی ہورہی ہیں۔ این۔ آر۔ او تو کہیں نہیں ہورہا، ہاں البتہ سمجھوتوں کے اشارے ضرور مل رہے ہیں۔

ابھی بریکنگ نیوز آئی ہے کہ سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف کی اپیل پھر سے مسترد ہوگئی ہے ایک اور جمعہ ان پر بھاری پڑ گیا۔ چھے ہفتوں کی ضمانت میں نواز شریف صرف اور صرف ٹیسٹ ہی کرواتے رہے اگر جاں بلب تھے تو پاکستان میں علاج ہرگز ممکن ہے۔ اب ان کو دوبارہ سے جیل ہی جانا ہوگا۔ سیاست دان بہرصورت اپنے اثاثے ٹھیک سے ظاہر نہیں کرتے پھر نیب کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔

شہباز شریف سے بھی پی اے سی کی صدارت واپس لینے سے ملک بھر میں سیاسی چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ تحریک ِ انصاف والے کہتے ہیں ق لیگ کے ساتھ تعلقات مثالی ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ سب کا مل کر چلنا ہی ملکی مفاد کے حق میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نظام درست کر کے سیاست دانوں، سرمایہ کاروں، کاشت کاروں، سرکاری افسروں، دانش وروں، نوجوانوں اور دیگر لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کامیابی کی راہوں پر چلائے نہ کہ عوام کو چوہوں کی طرح خطرے کی بُو سونگھ کر بلوں میں گُھس جانا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).