جنگل کی ادی واس دیوی کالارتری کیوں نہ بن سکی؟


آج صبح تک میں نیلم تھی اور میں روز جنگل کی دیوی کالارتری سے ہم ادیواسیؤں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے پوجا کرتی تھی۔

پھر میں خود کالارتری بن گئی، درگا کا ساتواں اور پرتشدّد روپ۔

لیکن کیا میں اس دیوی کا منصب نبھا سکتی ہوں؟

مجھے وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب کچھ لوگ وردیوں میں بندوقوں کے ساتھ آئے اور زبردستی ہمیں ہمارے گھر سے بے دخل کر دیا۔ انھوں نے ہمیں گھسیٹ کر گھر سے باہر نکال دیا اور بل ڈوزر سے گھر کو مسمار کر دیا۔ ہم بھائی بہن اور ہماری ماں چیخ چیخ کر رو رہے تھے۔ پتا جی کے چہرے کے تاثرات میرے دل پر ہمیشہ کے لئے ایک خنجر کی مانند نقش ہو کر رہ گئے۔ میری عمر اس وقت تقریباً دس سال تھی۔

کسی کمپنی کو یہ پورا علاقہ باکسائٹ کی کان کنی کے لئے چاہیے تھا۔ انہوں نے میرے پتا جی اور دوسرے گاؤں والوں کو معاوضے کے طور پر صرف دس دس ہزار روپئے دیے۔ جب پتا جی نے لوگوں کے ساتھ مل کر شہر جا کراحتجاج کیا تو ان سب کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ جیل سے رہا ہو کر آئے تو ہم سب لوگ گھنے جنگلات میں چلے گئے جہاں ہم نے زمین کو ہموار کیا اور کاشتکاری شروع کر دی۔ لیکن میرے گھر والوں کا وہ سکون کبھی واپس نہیں آیا جو ان کو پہلے گھر میں نصیب تھا۔ میں بھی اداس اور پریشان رہتی تھی۔ کچھ گاؤں والے آس پاس آباد ہو گئے تھے اور کچھ دوسرے کسی اور علاقے میں چلے گئے تھے۔

جب میں نے ماں سے بار بار پوچھنا شروع کیا کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو اہے تو ایک دن میری ماں مجھے کمرے کے ایک کونے میں لے گئی اور بتایا کہ ہم ادیواسی لوگ ہیں، یہ شہروں کے رہنے والے ہمیشہ سے ہمارے دشمن ہیں اور جنگلات کاٹ کر زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

مجھے شعور آیا تو پتا چلا کہ میرے آبا و اجداد شاید اتنے ہی عرصے سے ان جنگلات کے باسی ہیں جتنے پرانے یہ جنگلات ہیں۔ ارد گرد کے شہروں کے طور طریقے کئی مرتبہ بدل چکے ہیں لیکن ہم ادیواسییؤں کے ہاں ہزاروں سالوں سے کچھ خاص نہیں بدلا۔ شکار کرنا، درختوں سے پھل توڑنا، چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر فصل اگانا، جانور پالنا بس یہی ہماری معیشت ہے۔ ہمارا رہن سہن، ثقافت، مذہب سب کچھ یہ جنگلات ہیں۔

میرے پتا جی خوش قسمت تھے کہ انہیں شہر جا کر کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ لیکن نسلی امتیاز کی وجہ کسی نے بھی نوکری نہیں دی۔ وہ جنگلات میں واپس آگئے اور کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ گاؤں کے بچوں کی ابتدائی تعلیم میں مصروف ہو گئے۔ پتا جی گھروں سے بے دخل کیے ہوئے ادیواسیوں کی بہتری کے لئے مصروف رہتے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سب کو انصاف کے حصول کے لئے پر امن جد و جہد کی تلقین کرتے۔ انہوں نے ادیواسیوں کے انسانی حقوق کے اجرا کے لئے اور اپنی کمیونٹی کی مفلوک الحالی کے بارے میں دوستوں اور اپنے حامیوں کو لکھنا شروع کر دیا۔ ان کے ایک دو مضامین اخباروں میں چھپے تو کچھ لوگ انہیں کمیونسٹ کہنے لگے اور کچھ ریاست کا دشمن۔ لیکن انہوں نے اپنی قلمی تحریک جاری رکھی اور عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتے رہے۔

اس دوران سرکار نے ہمیں وارننگ دینا شروع کر دی کہ ہم نے زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور جرمانہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ فوری طور پر زمین خالی کر دیں۔

جب میں پندرہ سال کی تھی تو پتا جی اور ماں کو عدالت جاتے ہوئے بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ میں اور میرے تین بڑے بھائی یتیم ہو گئے۔ ہمیں کچھ پتا نہیں تھا کہ ہم ان حالات کا کس طرح مقابلہ کریں۔ بس اتنا معلوم تھا کہ ریاست کے اہلکار اور کچھ دوسرے لوگ ہمارے دشمن تھے۔ ایک غیر ملکی کمپنی ہمیں دوبارہ بے گھر کرنا چاہتی تھی تا کہ وہ یہاں کان کنی کر سکے۔

میرے پتا جی نے ہمیشہ پرامن جدوجہد کا پیغام دیا تھا لیکن میرا اس سے یقین اٹھ گیا۔ میں انتقام کی آگ میں جل رہی تھی۔ میں لڑکیوں کے ایک کمیونسٹ گروہ میں شامل ہو گئی اور جنگی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ ہمیں ماؤ کے نظریات کے بارے میں تعلیم بھی دی گئی۔ میری صرف ایک ہی لگن تھی کہ کسی طرح میں اپنے نوآباد گاؤں اور اپنی زمین کو بچا لوں۔ چھ ماہ کی جنگی تربیت کے بعد بیس لڑکیوں کو جنگل کے ایک حصے کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا گیا۔ میں کچھ ہی عرصے میں اپنی پلاٹون کی لیڈر مقرر ہو گئی۔

ہم جنگلات میں چھپے رہتے اور چوبیس گھنٹے آنے جانے والوں پر کڑی نگاہ رکھتے۔ ہم اس جنگل کے چپے چپے سے واقف ہیں اور جھاڑیوں کے اندر چھپنا، درختوں پر چڑھنا اور چھلانگیں لگانا یہ سب ہماری گھتّی میں پڑا ہوا ہے۔ ہمیں پتا تھا کہ ایک دن وردی پہنے ہوئے مسلح لوگ ہمیں ان گھروں سے بھی نکالنے کے لئے آئیں گے لیکن میں وہ نہیں ہونے دوں گی جو ہمارے ساتھ پہلے بھی ہو چکا ہے۔

آخر کل وہ دن بھی آگیا۔ سب سے اونچے درخت پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے آگاہ کر دیا کہ دور کچھ ٹرک اور جیپیں نظر آرہی ہیں۔ سب لڑکیوں نے اپنی اپنی جگہ سنبھال لی۔ یہ فوجی قریب آ کر وہاں رک گئے جہاں سے جنگل اور گھنا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے ایک پہاڑی کی اوٹ میں اپنے خیمے لگا لئے اور کچھ نے راستے میں حائل درخت کاٹنے شروع کر دیے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے دفاع کے لئے مورچے بنا لئے۔ لڑکیوں کی پلاٹون درختوں کی آڑ سے یا درختوں کے اوپر سے یہ سب دیکھتی رہی اور رات کا انتظار کرتی رہی۔

میں نے شام کو کالا رتری کی پوجا کی اور پھر دو لڑکیوں کے ساتھ مل کر پلان تیار کیا۔ رات کے گھپ اندھیرے میں ہم نے تین طرف سے حملہ کر دیا۔ کوئی دس منٹ تک یہ لڑائی جاری رہی۔ میں نے بڑے بڑے پتوں کے پیچھے چھپ کر ایک فوجی پر وار کیا۔ نشانہ خطا ہوا اور میری گولی اس کی آٹومیٹک بندوق پر لگی جو دور جا گری۔ میرے ساتھیؤں نے فوراً اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا۔ اس کے علاوہ ہم نے دو اور فوجیؤں کو اغوا کر لیا۔ ہم ان تینوں کو گہرے جنگل میں لے گئے۔ جیسے ہی صبح کا اجالا ہؤا تو میں نے ان کے چہروں پر نظر ڈالی۔

ان کی آنکھوں میں رحم کی درخواست تھی۔ ویسی ہی التجا جو میں روز کالارتری سے کرتی تھی۔

لیکن میں انتقام کی آگ میں جل رہی تھی!

میں بڑے اعتماد کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی تھی اور میری ایک انگلی رائفل کی لبلبی پر تھی۔ ان دشمن فوجیؤں کی زندگی کا انحصار میری ایک انگلی کی حرکت پر تھا۔

میں اپنی ماں اور پتا جی کے قتل کا بدلہ لے سکتی تھی۔

میں اپنے گھر کی بربادی کا انتقام لے سکتی تھی۔

روز کالارتری کی پوجا کرنے والی آج میں خود کالارتری بن گئی، نڈر، بہادر، با اختیار جنگل کی دیوی جسے طاقت اور تشدّد کے استعمال سے سکون ملتا ہو۔

لیکن میں ان دشمن قیدیؤں سے ان کے یونٹِ کی نقل و حرکت کے بارے میں تفتیش کے دوران ایک قیدی سے متاثر ہو گئی۔ اس کی باتوں میں کتنی معصومیت تھی اور چہرے پر عجیب و غریب نرمی، بالکل میرے پتاجی کی طرح۔

میں جیسے پگھل ہی گئی! اپنے پتا جی کی مانند جھلک سے، یا اس دشمن کی شخصیت سے، یا کوئی اور عجیب احساس جس کو بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔

میں ان قیدیؤں کو تفتیش کے بعد مار دینا چاہتی تھی لیکن اب میں بے یقینی کی کیفیت میں ڈوب گئی اور میں کالارتری اور نیلم کے درمیان ڈولنے لگ گئی! شاید وہ نیلم بھی نہیں جو اپنے حقوق کے لئے ہتھیار اٹھا کر لڑنا جانتی تھی۔ بلکہ نیلم، اپنے پتا جی کی طرح۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).