ٹرانسمیشنز یا رمضان کے تقدس کی پامالی


ماہِ مبارک رمضان کے چاند طلوع ہونے میں چند دن باقی ہے، زندگی کی تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی کوئی گارنٹی نہیں، لیکن اللہ تعالی کی ذات سے قوی اُمید ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کو پانے کا شرف ایک بار پھر ہمیں عطاء فرمائیں گے، اللہ تعالی نے سال میں بارہ مہینوں کا نظام بنایا ہے، لیکن جو فضیلت رمضان المبارک کو عطاء فرمائی ہے وہ دوسرے کسی مہینے کو عطاء نہیں کی، اسی بابرکت مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے، اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں لیلۃ القدر جیسی نعمت عطاء فرمائی ہے، اور یہی وہ ماہِ مبارک ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

یوں تو یہ ماہِ مقدس ہر سال اپنی گوناگوں خصوصیات کے ساتھ آتا اور چلا جاتا ہے، خوش نصیب وہ ہے جو اس ماہ مقدس کو پانے کے بعد اپنے رب سے اپنے گناہوں کو بخشوا کر مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور بد نصیب و محروم وہ ہے جو اس ماہ مقدس کو لہو و لعب اور شیطانی کاموں کی نذر کرکے مغفرت کے سنہرے موقع کو ضائع کردیتا ہے حضرت جبرائیل علیہ سلام نے دعا کی کہ ”ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے“ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمایا،

اس مہینے کے روزوں کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی حاصل کرو،

روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور بری عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور اس کے ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیاتِ ابدی کے حصول کا قابل ہوسکے، بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدّت میں کمی آجائے، اور خود بھوکا پیاسا رِہ کر اُس کے دل میں فقیروں، یتیموں، اور نانِ شبینہ کے محتاج لوگوں کے لئے رحم پیدا ہو، روزہ ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد لَعَلَّکمْ تَتَّقُوْنَ سے روزہ کی اصل غرض و غایت اچھی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس سے مقصود مسلمانوں کو متقی بنانا ہے۔

تقویٰ نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس طرح مضر غذاؤں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہوجاتی ہے، اور مادی لذتوں سے لطف و انبساط کی صلاحیت زیاد ہ پیدا ہوجاتی ہے، بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے، صحت مند خون پیدا ہونے لگتا ہے، اسی طرح اس دنیا میں تقویٰ اختیار کرلینے سے عالمِ آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہوجاتی ہے،

اس ماہِ مبارک میں اسلام کے احکامات پر عام دنوں میں عمل نہ کرنے والا بھی اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتا ہے اور اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے، عام دنوں میں شر کو ڈھونڈنے والا شر سے باز

آجاتا ہے، اور پرہیزگار مزید ترقی کرکے اپنے نفس کا تزکیہ خوب کرنے لگتا ہے، عملی اعتبار سے انتہائی کمزور مسلمان بھی اس ماہ مبارک میں اسلام کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے، علماء کرام سے اسلامی تعلیمات سیکھتا ہے، نماز روزے کے ذریعہ گناہوں میں ڈوبے نفس کو پاک کرنے کی تربیت اور مشق کرتا ہے، جلد باز نفس کو صبر پر آمادہ کرتا ہے اورحلال چیزوں سے مخصوص وقت کے لئے پرہیز کرکے حرام کے قریب بھی نہ جانے کی عادت بناتا ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے

ہاں بے دین طبقے سے اس ایک ماہ کے لئے بھی مسلمانوں کا اللہ کی طرف رجوع ہونا برداشت نہیں ہوتا، چند سالوں سے ٹی وی چینلز کو استعمال کر کے سحری، افطار ٹرانسمیشنز اور رمضان نشریات کے نام سے مسلمانوں کے دلوں سے رمضان کے تقدس کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کو دین سے دور کیا جا رہا ہے، اس قسم کے بے ہودہ پروگرام تو غیر رمضان میں بھی مسلمان کے لئے دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکتے پھر رمضان کے مقدس مہینے میں کیسے قابلِ دید ہوسکتے ہیں۔

نوجوانوں کا علمائے دین اور مذہبی راہ نماؤں سے روحانی اور ایمانی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق قائم تھا، اُن سے اپنے دینی وشرعی احکام و مسائل میں رجوع کرتے تھے، شریعت کے مطابق زندگی گزار نے کے لئے قدم قدم پر ان کی راہ نمائی اور رہبری کو اپنی ضرورت سمجھتے تھے، اُن نوجوانوں پر میڈیا نے ایسا جادو چلایا کہ آج وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر حیاء کی دھجیاں اڑانے والیوں سے دین سیکھتے ہیں، وہ نیم عریاں دوشیزائیں کہ جن کو علمِ دین سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا، جو اپنے چھوٹے سے جسم پر حیاء کی چادر تک نہیں ڈال سکتیں، وہ رمضان سے عقیدت کے جھوٹے آنسو بہا کر مسلمان قوم کو دینِ اسلام کی تعلیمات سکھا رہی ہوتی ہیں، لیکن افسوس اُن کے اوپر ہے نہ ٹی ویی مالکان کے اوپر کیونکہ ان دونوں نے تو اس حقیر دنیا کے عوض اپنا ایمان بیچنے کا سودا کیا ہوتا ہے، اُنہوں نے تو پکا عہد کرلیا ہے کہ ہم نے اتنی سر توڑ کوشش کرنی ہے کہ یہ مہینہ بھی کسی طرح ایک مسلمان کے لئے سودمند اور باعثِ نجات ثابت نہ ہوسکے اُن کو آفر ہی ایسی زوردار ہوئی ہے کہ اب وہ کسی بھی طریقے سے مسلمان کا رشتہ اپنے دین سے مضبوط ہوتے نہیں دیکھ سکتے، آخر قید کیے گئے اپنے پیر ومرشدین (شیاطین) کی نیابت بھی تو انہی نے کرنی ہے بلکہ افسوس اور تعجب تو اُن لوگوں کے اوپر ہے جو اللہ کے اس فرمان کو بھول گئے کہ ”اھلِ علم سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے، جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو بھول گئے کہ :

اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا ہے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ بخاری

جو دین وعلم کے اعتبار سے انبیاء کے حقیقی وارثوں کے بجائے ایسے بے حیاء مرد وخواتین کو اپنا پیشوا اور مقتدا سمجھ بیٹھے ہیں کہ جو رمضان کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے، جو اِس مرد و زن کے مخلوط حلقہِ پروگرام میں بیٹھے زرپرست مولوی کے اوپر دھوکہ کھا جاتے ہیں، جس کے پیشِ نظر ناپئیدار دنیا ہے دین ہرگز نہیں، جو اُس نعت خواں کو عاشقِ رسول سمجھ بیٹھے ہیں، جو اس بے حجاب محفل میں لفافوں کی خاطر رسولِ خدا کا مبارک نام لے کر بے حیاء مرد وخواتین سے داد وصول کرتا ہے

اے میرے مسلمان بھائی! خدارا! دین کو مذاق نہ بنائے، اس ماہِ مبارک کے تقدس کونہ کچلے، ٹی وی چینلز کے اِن خواتین میزبانوں اور مہمانوں کے لئے تو اُس وقت غیرت، حیاء، اور شرم کے الفاظ بے معنی ہوکر رِہ گئے تھے جب انہوں نے چراغِ خانہ کے بجائے شمع محفل بننے کا فیصلہ کیا تھا، اُنہوں نے تو رقص وسرور، ایکٹینگ، اور گانا گانے کافن سیکھا ہے علمِ دین تھوڑا سیکھا ہے جو آپ اُن سے سیکھ رہے ہیں،

ٹی وی چینلز کیا چاہتے ہیں اوراللہ تعالی ہم سے کیا چاہتا ہے، قرآن کریم کی سورۃ نساء کی آیت نمبر 26 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”

اللہ تعالی تو یہ چاہتا ہے کہ تمہاری طرف (رحمت کے ساتھ) توجہ کرے، اور جو لوگ خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے ہٹ کر بہت دور جاپڑو۔

مرضی آپ کی اللہ کی مانو یا خواہشات کے دلدل میں پھنسے لوگوں کی، لیکن یاد رکھئیے! خود کو اور اپنے گھر والوں کو جھنم سے آزاد کرانا ہمارا فرض ہے

ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنے اور اپنے گھر کی حد تک کچھ نہ کچھ اثر نہ رکھتا ہو، اپنے زیرِ اثر حلقے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے کا ہر شخص مکلف ہے، اپنی بیٹی، بہن، بیٹے، بھائی اور افرادِ خانہ کو نئی تہذیب کی اس سڑاند سے محفوظ رکھیئے گا، اللہ جل شانہ اپنی کتابِ مقدس میں ارشادفرماتے ہیں : اے ایمان والو! اپنے اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).