ادھورے لوگ جنہیں انسان نہیں سمجھا جاتا


قرآن مجید کا چونکہ اصل موضوع تکمیل انسانیت ہے سو اس وجہ سے قرآن مجید میں انسانیت کے ساتھ بہترین اخلاق و برتاؤ کرنے کا حکم جابجا موجود ہے۔ مذاہب کے علاوہ عالمی چارٹر آف ورلڈ میں بھی انسانیت کے ساتھ عمدہ طرزعمل رکھنے پر زور ہے اور اس متعلق بنیادی انسانی حقوق پر سینکڑوں قوانین بنائے گئے ہیں۔ انسانی معاشروں میں خواجہ سراء یعنی مرد و عورت کے بیچ تیسری ساخت کی ایک معصوم مخلوق بھی موجود ہے۔ جنہیں ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں طبقوں میں نہ صرف کمزور سمجھا جاتا ہے، بلکہ انہیں انسانیت سے بھی کم درجے میں گنا جاتا ہے، حالانکہ پوری جسمانی ساخت، ڈھانچے کی ترتیب اور حواس کے ساتھ وہ مکمل انسان ہیں۔

خواجہ سراوں کو مختلف تضحیک آمیز القاب اور توہین آمیز ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بالخصوص تیسری جنس کی اہمیت سے غالباً سب لوگ انکاری ہیں۔ یہاں جس طرح اُن پر ظلم و ستم ہورہا ہے شاید ہی کسی عام شہری پر ہو، قرآن کے سورة التین آیت نمبر چار میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”یقیناً ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں پیدا کیا“ قرآن مجید میں جگہ جگہ جنس و انس کے اصطلاحات کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے یا کہیں الگ الگ موضوع میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ آیا دنیا میں صرف یہی دو جنس ہیں جس کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، تب ہمارے ذہنوں میں تیسری جنس کا خیال آجاتا ہے، اور یہ خیال بس خیال بن کر رہ جاتا ہے۔

قرآن پاک کو اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں تیسری جنس کے بارے میں کچھ نہیں ملتا آخر ایسا کیوں؟ اس کا جواب علماء کرام دیتے ہیں کہ ان کے بارے میں ذکر نہ ہونا قرآن پاک کے عزت و احترام میں کمی بیشی نہیں لاتا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمت اللعالمین ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اکیلے چھوڑ دے گا، جو اپنے بندے سے ستر ماؤں جیسا پیار و محبت کرتا ہے وہ کیسے اپنے بندوں کو نظرانداز کرسکتا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مرد اور عورت کے روپ میں پیدا فرمایا ہے مگر جس طرح دیگر پیدائشی نقائص (اندھے، بہرے، گونگے ) رکھنے والوں کا قرآن میں بحث نہیں اس طرح خواجہ سراوں کے متعلق بھی کوئی آیت مبارکہ نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہ کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ ایک بیماری کا نام ہے جس میں انسان کے اندر کروموسوم کی کمی بیشی ہوتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق یہ بیماری اکثر مردوں کے اندر پائی جاتی ہے، لیکن بد قسمتی سے اس جرم کا ارتکاب عورت ذات کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور تاحیات عورت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قومی المیہ یہ ہے کہ مرد اس بیماری کا سبب بھی عورت کو سمجھتا ہے۔ یہ بیماری قابل علاج ہے نہ کہ قابل نفرت اس وجہ سے جتنا ہوسکے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں شانتی ہو اور برائیوں کا جڑ سے خاتمہ ہو۔

خواجہ سراوں کو درپیش مسائل اور مختلف چیلنجز بیک وقت ان کے زندگیوں پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، مُلاحظہ کیجئے ایک مقامی خواجہ سرا سے انٹرویو کے دوران چند سوالات پوچھے گئے جن کے جوابات انہوں نے کچھ یوں دیے کہ۔ ”

اکثر اوقات ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم اس دنیا پر ایک بوجھ ہیں، خود سے نفرت سی ہوجاتی ہے۔ من کرتا ہے تمام لوگوں سے دور ہی زندگی بسر کروں، نہ ہم باہر کھا پی سکتے ہیں، نہ بلا جھجک گھوم پھر سکتے ہیں۔ بس ایک زندہ لاش کے مانند اپنی زندگی کاٹتے ہیں۔ ماں اپنی اولاد کو کتنا چاہتی ہے مگر نہ ہمارے والدین، عزیز ہمارے حال سے واقف ہوتے ہیں نہ کوئی ہم سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ لوگ تنگ کرتے رہتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، جن پروگرامز کے لئے ہمیں مدعو کیا جاتا ہے وہ ہم بخوشی قبول نہیں کرتے بلکہ اکثر خواجہ سراؤں کی معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں۔

کبھی ہمیں انسان نہیں سمجھا گیا ہمیشہ سے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج تک کسی بھی حکومت میں ہمارے لئے کوئی سپیشل ایجوکیشن سنٹر قائم نہیں کیے گئے یعنی پیدا ہوتے ہی ہمیں بے گھر کردیا جاتا ہے۔ اس میں ہماری غلطی نہیں کہ ہم اس سٹیج پر ہیں، بعض ناگزیر وجوہات کے باعث کئی کئی دنوں تک ہم اپنے کمروں میں قید ہوتے ہیں پر افسوس صد افسوس کوئی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ خواجہ سراؤں نے حکومت وقت سے گزارش کی ہے کہ خدارا ان کے حقوق کی پاسداری کریں اور ان کے لئے مخصوص نشستوں کا اہتمام کرکے ان پر احسان عظیم کریں۔

جب جنس کے معاملے میں انسان بے اختیار ہے تو خواجہ سراؤں کو جنسی بنیادوں پر ذلت کی علامت کیوں بنادیا گیا ہے؟ ایک لمحے کو تصور کیجئے تیسری جنس کا بچہ ہمارے گھروں میں بھی پیدا ہوسکتا ہے، ایسے بچوں کی زندگی نرگ بنانا کون سے دھرم میں ہے؟ ان کو لحد تک اپنوں اور پرائیوں کی جس بے رخی کاسامنا کرنا پڑتا ہے اس کا حساب ہم آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر نہیں کرسکتے ہیں۔ کیا ہم اپنے بچوں کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کرتے ہیں آگر نہیں تو وہی رویہ اور وہی سلوک اس تیسری جنس کے ساتھ کیوں نہیں کیا جاتا؟

وہ بچے جو ماں باپ کے لئے جگر گوشے کے مانند ہوتے ہیں مگر صرف جنس معلوم ہونے تک، جنس معلوم ہوتے ہی اسے غیر بنادیا جاتا ہے۔ گھر کے چوکھٹ پہ اس کے قدم حرام قرار دے دی جاتے ہے کیا والدین ایسا بخوشی کرتے ہیں؟ تو جواب زیادہ تر نفی میں ہی آجائے گا کیونکہ والدین تاحیات اپنے بچوں کو پیار محبت کرتے ہیں اس ناسور کی ذمہ داری معاشرے میں عدم تحفظ و انصاف اور یکساں حقوق کو پامال کرنے والے اداروں اور محکموں کی ناقص کارکردگی ہے۔

مندرجہ بالا بحث اس امر کی دلیل ہے کہ خواجہ سرا کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ یہ بھی ہم میں سے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ جس طرح دیگر پیدائشی کمزوریوں کے شکار بچوں کو خصوصی بچے سمجھا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی خصوصی بچے ہوتے ہیں اور یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی بہت سے معاشرتی خامیوں کو چھپائے رکھا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس بیماری میں مبتلا افراد کو اچھوت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے اور عامل فاضل افراد کی ایک کثیر تعداد ہونے کے باوجود بہت ہی کم افراد ان کو تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ہی گھر سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ہر معاشرتی حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ چند نامعقول افراد زندگی کی سانسوں کو پورا کرنے کی خاطر ہر جائز و ناجائز کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور ایک حقارت بھری مہر سب کے نزدیک ان پر لگ جاتا ہے۔

جاہل اور کم پڑھے لکھے افراد کے نزدیک ایسے افراد قابل نفرت ہوتے ہیں، مگر کچھ اچھے تعلیم یافتہ افراد بھی ان کے ساتھ ظلم و بربریت کا معاملہ کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا کی یہ بے بس اور لاچار مخلوق صرف اپنی ہی آزمائش نہیں جی رہی بلکہ من حیث القوم و ملت ہم بھی اس آزمائش میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت جائیداد میں حصہ اور زندگی مہیا کرنا ان کے بنیادی حقوق ہیں۔ جو کہ خالق اللہ نے ان کو عطا کیے ہیں، ان کے ماں باپ سے ان کے ہر ہر اس فعل کا حساب لیا جائے گا جو ان ماں باپ سے دیگر بچوں کے بارے میں ہوگا۔ یاد رکھیں اللہ کے نزدیک یہ کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ مرد اور عورت کی جنس میں سے ایک جنس ہے جس کے علاج اور دیگر بنیادی حقوق معاشرے اور حکومت پر اسی طرح عائد ہیں جس طرح اسلامی فلاحی مملکت پر باقی بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے مواقع میسر کرنا ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔

کتنی اچھی اور عمدہ مثال قائم ہوگی کہ ان کے حقوق کو سمجھا جائے اور اس بیماری میں مبتلا افراد کو آدم اور حوا کی اولاد تسلیم کرکے باعزت انداز میں لکھا اور پڑھا جانے تاکہ سب سے پہلے تو حوا اور آدم کے اس اولاد کو اس کا باعزت اور قابل احترام تعارف دیا جا سکے۔ بعد ازاں ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی خصوصی تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں اور ملازمت میں ان کے لئے یکساں مواقع Special Persons Quota مقرر کیے جائیں۔ اور جن کا نفسیاتی یا طبعی علاج ممکن ہو ان کو علاج کی سہولت فراہم کی جائے تا کہ نا صرف معاشرے میں بہت سی اخلاقی برائیاں ختم کرنے میں مدد ملے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اللہ کے حضور ہمارا معاشرہ شرمندہ اور سزا وار نہ ہو۔

آخر میں اپنے اُن چند دوستوں کا دل کے اتھاہ گہرائیوں سے مشکور ہوں جنہوں نے اس بھاگ دوڑ میں میری ہر ممکنہ مدد کی اور ہر قسم مالی اور جانی مدد کر کے اس بات کا ثبوت دیا کہ انہیں بھی خواجہ سراؤں سے انتہائی ہمدردی ہے۔ حکومت وقت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے اور عام لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے اقدامات کیے جائیں، کیونکہ خدا کو اپنی ہر مخلوق بہت عزیز ہے اور اس کی تقسیم کے پیچھے جو راز پوشیدہ ہے ان کو بھی صرف وہی جانتا ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب حقوق العباد کی پامالی کے جرم میں خدا کی عدالت میں دھر لئے جاوگے اور یہ تو سنا ہی ہوگا خدا کی کورٹ میں حقوق العباد کی پامالی ناقابل ضمانت جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).