حکومت نے گورنر اسٹیٹ بینک سے استعفیٰ کیوں مانگا؟


وزیراعظم عمران خان نے اچھی شہرت کے حامل گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے سربراہ نہ صرف آئی ایم ایف کے لئے انتہائی سخت ثابت ہوئے بلکہ وہ سنگین مالی بے قاعدگیوں کے چند کیسز میں متعلقہ دستاویزات فراہم کرنے کے لئے بھی دباؤ میں رہے جس میں نیب کے زیرحراست تحریک انصاف کے اہم رہنما کے مالی معاملات بھی شامل ہیں۔

سنگین بے قاعدگیوں کے حوالے سے چند دیگر مطالبات بھی طارق باجوہ نے پورے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ گورنر اسٹیٹ بینک سے کہا گیا تھا وہ مرکزی بینک کی طرف سے کچھ ایسا لکھ کر دیں جس سے حکومت کے منظور نظر مالیاتی نوعیت کے مجرمانہ مقدمات سے بچ جائیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا وزیراعظم عمران خان سبکدوش ہونے والے گورنر اسٹیٹ بینک سے کیے گئے ان غیرقانونی مطالبات سے آگاہ تھے؟ اسٹیٹ بینک ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طارق باجوہ کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

طارق باجوہ سے مستعفی ہونے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے فوراً استعفیٰ دیدیا تاکہ ایسے وقت میں جب ملک کی اقتصادیات مشکل وقت سے گزر رہی ہے، حکومت اور گورنر اسٹیٹ بینک کے درمیان کسی تصادم سے بچا جا سکے۔ ایک ذریعہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ طارق باجوہ آئی ایم ایف کے مخصوص مطالبات کی راہ میں مزاحم تھے۔ ان کے خیا ل میں آئی ایم ایف کے یہ مطالبات قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ اس ضمن میں رابطہ کرنے پر کابینہ کے ایک وزیر نے کہا کہ حکومت ان تبدیلیوں پر جلد ایک پالیسی بیان جاری کرے گی۔

اپنا نام ظاہرکیے بغیر وزیر کا کہنا تھا کہ انہیں شک ہے کہ عمران خان کی حکومت میں کوئی غیرقانونی مراعات کے حصول کی کوشش کر سکتا ہے۔ طارق باجوہ کا تعلق 1981 کے ڈی ایم جی سے ہے جو پاکستان کے سول سروس کا وقار سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ بعد ایک سول سرونٹ کو گورنر اسٹیٹ بینک بنایا گیا تھا۔ سول بیورو کریسی میں انہیں انتہائی پروفیشنل، محنتی اور دیانتدار سرکاری ملازم تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کے حوالے سے قابل احترام سمجھے جاتے ہیں وہ 2011 سے 2013 تک سیکرٹری خزانہ پنجاب رہے۔

چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کی حیثیت سے ٹیکس وصولیوں کو 1800 ارب سے 4000 ارب روپے تک پہنچانے میں ان کا کردار نہایت اہم رہا۔ آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے وہ انتہائی تجربہ کار رکن تھے جو تکنیکی مہارت اور صلاحیت کی بنا پر آئی ایم ایف کی چال بازیوں کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ذرائع نے کہا کہ طارق باجوہ روپے کی قدر مزید گھٹانے اور بھاری ٹیکس عائد کرنے کے آئی ایم ایف مطالبے کی مزاحمت کر رہے تھے۔ خدشہ ہے کہ اب ورلڈ بینک کے ایک سابق ملازم کو مشیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے موجودہ ملازم کو سینٹرل بینک ریگولیٹر بنانے کے بعد موجودہ احکومت ٓئی ایم ایف سے معاہدے کے لئے تیار ہے۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ – انصار عباسی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).