پشتون تحفظ موومنٹ بنیادی حقوق مانگتی ہے


وطن عزیز میں ہر بات بہت سوچ سمجھ کر کہنا پڑتی ہے، کیوں کہ کسی بھی وقت آپ کے الفاظ کفر یا غداری کے زمرے میں لا کر آپ کوملک دشمن یا واجب القتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور سپہ سالار اعظم قمر جاوید باجوہ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں پچھلے چند دنوں کے دوران معمولی الفاظ کے تغیر و تبدل سے تقریباً ایک ہی بات کہی ہے کہ اس کے مطالبات درست ہیں مگر اس کے علم برداروں کا لہجہ اور طریقہ کار غلط ہے۔ جنرل صاحب نے وزیر اعظم صاحب سے تھوڑا سا اختلاف رائے کرتے ہوئے پی ٹی ایم میں موجود بھیڑوں میں سے کچھ بھیڑیوں کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے (اس سے پہلے تعلقات شعبہ عامہ کے سربراہ آصف غفور صاحب پی ٹی ایم کو ”را“ اور ”این ڈی ایس“ کی امداد سے چلنے والی ملک دشمن تحریک قرار دے چکے ہیں اور ان کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی نوید بھی قوم کو سنا چکے ہیں) ، اس لیے باجوہ صاحب، خان صاحب سے تھوڑا بدلے ہوئے انداز میں بولے۔

جس طرح لوگوں کو بتایا جا رہا ہے، بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس فوج یا ریاست کے خلاف نعرے لگائیں، جن نے انہیں دہشت گردی سے چھٹکارا دلایا ہے، انہیں سکھ کا سانس لینے دیا ہے۔ دال میں ضرور کچھ کالا ہے بلکہ بہت کچھ کالا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی قوم اتنی خود غرض نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے محسنوں کو آنکھیں دکھائے۔ (انفرادی طور پر یہ ممکن ہے مگر بحیثیت قوم یہ ممکن نہیں، اور پی ٹی ایم چند لوگوں کی نہیں، پورے قبائلی علاقہ جات، بلوچستان، خیبر پختون خوا بلکہ تمام بے کسوں اور مظلوموں کی آواز ہے)۔

اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ماضی میں جانا ضروری ہو گا۔ آپ نے بہت سے جرنیلوں اور سیاست دانوں سے یہ اعتراف سنا ہو گا کہ افغان جنگ میں ہم نے روس کے خلاف امریکی مفادات کے لئے کرائے کے قاتل کا کردار کیا، نہ بھی سنا ہو، تب بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے مذہبی اور خفیہ اداروں نے مل کر جہاد کا جو ڈھونگ رچایا، وہ جہاد نہیں بلکہ مفادات کا کھیل تھا، جس میں ہمارے بے شمار غریب، سادہ لوح اور مذہب پر مر مٹنے والے پشتون بچے جنت اور حوروں کی ہوس میں لقمہ اجل بنے اور ان کے جنازوں میں شرکت کے لئے لوگ جوق درجوق مولویوں کے بلاوے پر اس لالچ میں شامل ہونے لگے کہ ان کے خون کی قربانی کے بدلے شاید ان کی بھی مغفرت ہو جائے، اور مولوی حضرات ان شہیدوں کے والدین کو ہار پہنانے لگے۔

مجھے آج تک وہ منظر نہیں بھولتا جب ہمارے گاؤں سے ملحق گاؤں کے ایک ضعیف العمر شخص کو مولوی صاحبان اس خوشی میں ہار پہنا رہے تھے کہ اس کا بچہ افغانستان میں شہید ہو کر اس کے اور اس کے پورے خاندان کے لیے جنت کا سامان کر گیا تھا (دنیا میں میں نے آج تک کسی جانور کو اپنی اولاد کی موت پر خوشی مناتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، انسان تو پھر انسان ہے، آپ کی اولاد نے چاہے سچائی اور حق کے لیے بھی جان دی ہو، مگر اولاد سے محبت کا یہ فطری تقاضا ہے کہ آپ پریشان ضرور ہوں گے)۔

خیر یہ آگ وخون کا کھیل مولوی اور خفیہ اداروں کی سر پرستی اور ملی بھگت سے چلتا رہا اور ڈالر آتے رہیں کہ اچانک نائن الیون ہوا، جس کا سرغنہ سعودی شہری اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ٹھہرے۔ ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ دی، جس کے رد عمل میں امریکا نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں اور جنرل مشرف نے باقاعدہ ائیر بیسز ان کے حوالے کر کے ایک نیا ڈراما شروع کیا۔ پاکستان دُہرا کردار ادا کرتا رہا، چور کو بھی راہ دکھاتا رہا، اور گھر والے کو بھی خبردار کرتا رہا۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا، کہ اسامہ کو ایبٹ آباد میں فوجی چھاؤنی کے قریب امریکی کمانڈوز مار کر لے گیا۔

پاکستان کے مجاہدین اب دہشت گرد ہو چکے تھے، اس لیے وہ پاکستان میں دھماکے کرتے رہے اور بے گناہ لوگ مرتے رہے اور بالاخر 16 دسمبر دو ہزار چودہ کا وہ منحوس دن آیا، جس دن آرمی پبلک اسکول کے پرنسپل، اساتذہ اور 120 سے زائد معصوم پچوں کا ایسے اندوہ ناک طریقے سے قتل ہوا کہ سفاک ترین انسان کا دل بھی دہل گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس ہوئی، عمران نے دھرنا ختم کیا، اور اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم کیا گیا، آل پارٹیز کانفرنس میں علما بھی موجود تھے مگر کسی نے اچھے طالبان پر اسٹینڈ نہیں کیا۔

راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا، وزیرستان کے مکینوں کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑا، در در کی ٹھوکریں کھائیں اور جب ان کی واپسی شروع ہوئی تو وہ اپنے گھروں کو نہ پاتے ہوئے ہکا بکا رہ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق پورے وزیرستان کو مسمار کیا گیا تھا، ردی کے کاغذ تک کو جلایا گیا تھا، اور اس پر مستزاد یہ کہ چیک پوسٹوں پر انہیں تنگ کیا جاتا، کرفیو الگ ہوتا، بارودی سرنگیں الگ لوگوں کو لولا لنگڑا بنا رہی تھین۔

کراچی میں قاتل راؤ انوار نے وزیرستان کے سکونتی نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا، جس پر پشتونوں میں غصہ اور انتقام کی لہر دوڑ گئی، اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا اور منظور پشتین منظر عام پر آئے جس نے پشتون تحفظ موومنٹ کی بنیاد رکھی (اس سے پہلے یہ تحریک گومل یونیورسٹی کی سطح تک محدود تھی)، جس کے مطالبات میں راؤ انوار کو سزا، بارودی سرنگوں کی صفائی، ماورائے عدالت قتل پر کمیشن بنانا، بے پتا افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنا، مالی نقصان کا ازالہ کرنا، چیک پوسٹیں ختم کرنا اور اتوار کے دن کرفیو کا خاتمہ شامل تھا۔ کچھ پر کام شروع ہوا، دس سال بعد جنوبی وزیرستان میں موبائل سروس بحال کی گئی اور کچھ پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔

اس تحریک کے جلسوں کے میڈیا کوریج اور انٹرویوز پر پابندی ہے۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، بچے بگڑ جائیں تو ماں انہیں مناتی ہے، مارتی ہر گز نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان کے کارکنان کا رویہ بعض جگہ سخت رہا ہو گا مگر ان کے مطالبات اگر وقت پر حل کیے جاتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اب بھی وقت ہے کہ ان کے جائز مطالبات حل کیے جائیں اور تشدد سے احتراز کیا جائے، کیوں کہ طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔

میں قوم پرست نہیں ہوں بلکہ کسی بھی نظریے کو جو انسانوں کو بانٹتا ہے، کے خلاف ہوں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے ساتھ دوسرے صوبوں کی نسبت زیادتی ہو رہی ہے، دوسرے صوبوں میں بھی شہد اور دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہیں مگر وہاں تھوڑا گزارہ ہے۔ کسی دوسرے صوبے کے سر الزام تھوپنا مناسب نہیں ہے۔

بعض لوگ فوجی جوانوں کی شہادت کی آڑ لیتے ہیں۔ فوجی بھی ہمارے ہی بھائی اور بیٹے ہیں، اور ان کی مائیں ان کو جھنڈوں میں لپیٹنے سے خوش نہیں ہیں۔ یہ سب ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، اگر ہم نے یہ آگ کا کھیل شروع نہ کیا ہوتا تو آج خوش حالی ہی خوش حالی اور امن ہی امن ہوتا۔ امن کے لیے جنگیں لڑنا ضروری نہیں ہوتیں اور نہ ہمسائیوں سے تعقات خراب کرنا ضروری ہوتے ہیں۔

اب اس تحریک کو غدار قرار دیا جا چکا ہے، پورے خیبر پختون خوا کا قتل اور لوٹ مار معاف کیا جا سکتا ہے مگر اس تحریک کا ایک نعرہ معاف نہیں کیا جا سکتا۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).