گائے کا دودھ کیوں مضرِ صحت ہوتا ہے؟


گائے کو ٹیکے لگا کر ان کے دودھ کی پیداوار بڑھانے کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہمیں اب اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم کس قدر زہر ناک زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ گوالوں کو صرف اتنا پتا ہے کہ ہم نے کس طرح پیسے زیادہ کمانے ہیں۔ انھیں اس چیز کی کسی نے تربیت نہیں دی کہ آپ جن ٹیکوں سے گائے کے دودھ کی پیداوار بڑھا رہے ہیں، وہ کس قسم کی تبدیلیاں لا سکتے ہیں یا لا رہے ہیں۔

چند دن پہلے میرے ماموں قاسم یعقوب نے مجھ سے ایک نظم کی بابت دریافت کیا کہ کیا واقعی گائے کے ٹیکوں سے عورتوں پر اس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کا اس نظم میں ذکر کیا گیا ہے۔ میں نے اس نظم کو پڑھا اور کسی حد تک درست پایا مگر جس انداز سے اس نظم میں اثرات دکھائے گئے ہیں وہ مکمل طور پر درست بھی نہیں۔ پہلے نظم ملاحظہ کیجیے:

”حیف صد حیف!

خالہ سکینہ کی بیٹی،

جسے عورتیں کوستی تھیں

کہ تیرہ برس ہی میں بَر مانگتی ہے،

وہ تنگ آ کے کل خود کشی کر گئی ہے

گوالوں پہ لعنت خدا کی

فراوانیِ شیر کی حرص میں

اپنی بھینسوں کو ٹیکے لگا کر

ہمیں ظاہراً کم سنی ہی میں بالغ بنا دیتے ہیں

آں جہانی کو میں پاس سے جانتا تھا

حقیقت میں وہ بالغہ بالعلامات تھی

’بالغہ بالکرامات‘ ہرگز نہیں تھی

۔

گوالوں کے فرعون پر بھی ہو لعنت خدا کی

کوئی جا کے یوسف سے تعبیر پوچھو

کہ اب اَن گنت گائیں فرعون کا خواب ہیں

ایسی گائیں کہ جو نہ تو دبلی نہ موٹی ہیں لیکن

بہت تیز رو ہیں،

ہر اک شے کچلتی چلی جا رہی ہیں

زمانے میں دو قسم کے لوگ ہیں

اک گؤپال ہیں،

دوسرے ان گؤپال کی لاگ* ہیں

دودھ سے زندگی ہے

اسی دودھ کی صارفیت میں ہم رات دن مستعد ہیں

خدا ان گوالوں کو سمجھے

فراوانیِ شیر کی حرص میں،

جو ہمارے لیے یہ مہ و سال مہمیز کرتے چلے جا رہے ہیں

ہمیں نوجوانی میں بوڑھا کیے جا رہے ہیں‘‘

 ۔

*’’لاگ‘‘  مقامی لفظ: وہ لوگ جن کو گوالا روزانہ دودھ دینے کا پابند ہوتا ہے۔ پنجابی میں اس کے لیے ’باندھ‘ کا لفظ مستعمل ہے۔

یہ نظم سرمد سروش کی ہے۔ اس نظم میں ٹیکوں کے اثرات کو مبالغہ کی حد تک پیش کیا گیا ہے۔ کسی بچی کے اندر ہارمونک تبدیلی اس قدر زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ جذبات کے ہاتھوں خود کشی تک پہنچ جائے۔ شاعر بتاتا ہے کہ وہ بالغہ بالعلامات تھی کیونکہ اس میں علامتیں ظاہر ہوئیں۔ شاعر کے مطابق اس لڑکی میں جانتے بوجھتے تبدیلیاں لائی گئی نہ کہ کسی معجزے کی بدولت۔ اس دودھ سے جینز میں تبدیلی نہیں آتی بلکہ یہ انفرادی سطح پر ہونے والی تبدیلی ہے۔ جو عادات میں تبدیلی سے درست بھی ہو سکتی ہے۔ ۔ مردوں میں بھی اس ہارمون کی زیادتی کے اثرات آ سکتے ہیں جس میں چھاتی میں ابھار اور مزاج کی تبدیلیاں شامل ہیں۔ مرد اور عورت میں اس ہارمون سے تبدیلیاں صرف oxytocin کا لیول بڑھنے سے پیدا ہوتی ہیں اگر لیول نارمل رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

اگر ہم اپنے بدن کی ساخت پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے جسم کے مختلف نظام ہارمونز سے چلتے ہیں۔ oxytocin بھی ان میں سے ایک ہے۔ کیمیائی اعتبار سے یہ پروٹین ہے۔ اس کا مقصد پٹھوں کی ایک قسم smooth muscle cells میں کھچاؤ پیدا کرنا ہے۔ اس ہارمون کا بنیادی کام حمل کے دوران labour کا عمل کرانا ہے یعنی بچہ دانی یا یوٹرس کے مسلز میں کھچاؤ پیدا کرنا۔ اس کے علاوہ بچے کی پیدائش کے بعد شیر خواری کے لیے دودھ کے نکلنے میں بھی oxytocin کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

یہ مردوں میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن مندرجہ بالا امور سر انجام نہیں دیتا۔ یہ انسانوں کے علاوہ جانوروں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ چونکہ انسان عجلت پسند ہے لہٰذا اس ہارمون کے ٹیکے بنا دیے گئے ہیں اور گائیوں کو لگائے جاتے ہیں تاکہ ہارمون کی مقدار بڑھ جائے اور اس طرح زیادہ outcome یعنی زیادہ دودھ ملے۔ لیکن یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ اس ہارمون کے پورے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گائے ہر دفع یوٹرس میں کھچاؤ کی تکلیف سے گزرتی ہے اور اسی وجہ سے تقریباً تین بچھڑوں کے بعد مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسی گائے کا دودھ پینے سے ہمیں کیا نقصان ہوگا؟

ایسا دودھ جس میں oxytocin کی مقدار نارمل سے زیادہ ہو، نقصان دہ ہے لیکن یہ ہارمون heat sensitive protein ہے اس لیے دودھ کو اچھی طرح ابالنے (pasteurization) سے اس کے منفی اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ عموماً گھروں میں دودھ ابال کر پیا جاتا ہے لہٰذا بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس ہارمون کے اثرات انسانی جسم میں منتقل ہوں۔ چونکہ ہمارے ہاں صحت و صفائی کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا اس لیے ہم گؤپالوں کی غفلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ Hormone imbalance عام ہوتی جا رہی ہے۔ اس ہارمون کی زیادتی سے مرد اور عورتوں دونوں میں کچھ نہ کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں جس میں مزاج میں بدلاؤ بھی شامل ہے۔ مسلسل اسی کیفیت میں رہنے سے جسمانی بگاڑ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

حکومتوں کا کام یہ ہے کہ اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دے۔ گوالوں کے دودھ کو با قاعدہ چیک کیا جائے۔ کم از کم گائیوں کو تو اس اذیت سے بچایا جا سکتا ہے جسے ہم شمار بھی نہیں کرتے۔ اگر ہماری ڈیری انڈسٹری میں شعور اجاگر کیا جائے تو اس مسئلے کو یہیں ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسی بیماریوں فوری نہیں بلکہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ دیکھا جائے تو بانجھ گائے گؤپال کے کسی کام کی نہیں رہتی اور یوں وہ زیادہ نقصان اٹھاتا ہے۔ مجبوراً اسے گائیوں کو فروخت کرنا پڑتا ہے جس کا گوشت بھی کسی بڑے نقصان سے کم نہیں۔ مگر قصائی حضرات ایسی گائیوں کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید کے ان کے گوشت کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح کی گائیوں کا گوشت بھی مضرِ صحت ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).