موبائل فون پر عزت برائے فروخت


وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ یقیناً اس مصرع میں کہی بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتا، سوائے ان لوگوں کے جو ذہنی پستی کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت نے اپنی محنت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ جہاں پھولوں کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں وہی اچھے لوگوں کے ساتھ ہر معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عورت کی عزت کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر دینی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو دینِ اسلام نے عورت کو ایک عظیم مرتبے سے نوازا ہے۔

جہاں عورت کے حقوق کے بارے میں خدا نے اتنا حکم دیا ہے وہاں عورت کی عزت کے متعلق بھی اللہ نے بہت سے احکامات نازل فرمائے ہیں۔ عورت یقینا ماں، بیٹی، بیوی ہر روپ میں قابل ستائش ہے اور عزت کی حق دار بھی۔ اس بات سے انکار نا ممکن ہے۔ لیکن میرا موضوع عورت کی بڑائی بیان کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے ان چند افراد کی طرف توجہ دلانا ہے جو معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ ہمارا آج کل کا معاشرہ جہاں دین کے دائرے سے کوسوں دور ہے۔ وہی قانون کے ہاتھوں سے بھی اسی طرح دور ہوتا جا رہا ہے جیسے لومڑی کے ہاتھ سے انگور۔ آج میں آپ کی توجہ جس بات کی طرف دلانا چاہ رہی ہوں وہ بات میرے اپنے ساتھ ہونے والے ایک واقعے سے تعلق رکھتی ہے۔

چند دن قبل مجھے ایک نمبر سے ایک کال آئی جو کہ میں نہ لے سکی، اس کے آنے کے بعد انگریزی زبان میں ایک میسج موصول ہوا جس میں صاف الفاظ میں عزت فروخت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ ساتھ ہی رقم بھی لکھی ہوئی تھی، رہائش کے لیے جگہ اور مالی مدد کی تفصیلات بھی درج تھیں۔ اس کے علاوہ فون پر بات کرنے کے لیے بھی آفر دی گئی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے ایسا میسج موصول ہوا ہے۔ ایسے کیسز سننے میں تو آتے رہتے ہیں لیکن اب میرے ساتھ بھی یہ واقعہ پہلی بار پیش آیا ہے، جس کے بعد میری روح تک کانپ اُٹھی اور احساس ہوا کہ بے حیائی تو گویا جیسے سب کی رگوں میں بس گئی ہو کوئی عزت کا خیال نہیں۔

اس واقعے کے بعد سب سے زیادہ پریشان کن بات میرے لیے یہ تھی کہ نہ جانے ایسے کتنے گھرانے ہوں گے اور ایسی کتنی جوان لڑکیاں ہوں گی جن کو اپنے گھروں میں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی ہو گی اور یقیناً ان لڑکیوں کے لئے اس طرح کے میسجز، ترغیب گناہ سے کم نہیں ہوں گے اور یقیناً ایسی بہت سی لڑکیاں ہوں گی، جو ان جیسے افراد کے جھانسے میں آ کر اپنی عزت اور اپنی پوری زندگی برباد کر چکی ہوں گی اور یہ بات ہمارے تمام معاشرے کے لیے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ یہ پیشہ آور افراد کھلے عام ایسے لالچ دے کر لوگوں کو بہکانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے کوئی سیل لگی ہوئی ہے۔

دل میں ہوس بھری خواہشات لیے ہوئے ایسے بہت سے نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد بھی ہوں گے جو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بھی ان لوگوں سے رابطہ کرتے ہوں گے۔ کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں نے بہت سے ایسے گھروں کو اپنے قابو میں کیا ہو گا۔ شروع شروع میں تو لوگ یہ کام شوق سمجھ کر کرتے ہیں، لیکن انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ کب ان کے شوق ایک کبھی نہ ختم ہونے والا ناسور بن چکے ہیں۔

پھر یہی کام ایک کاروبار کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو یہ تجربہ بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کاروبار کو کس طرح مزید سے مزید پروان چڑھایا جائے۔ کچھ لوگ تو جیسے ایسی آفرز کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، جن میں مرد اور عورتیں دونوں ہی شامل ہیں۔ غیرت تو جیسے سنار کی دکان میں لگے ایسے ہیروں کے ہار کی طرح ہے کہ جو غریب کی پہنچ سے کوسوں دور ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانیت بھی دم توڑ چکی ہے؟

آج کل تو جس کے گھر ماں، بہن اور بیٹی ہے تو بھی، وہ ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ احساس نام کی چیز ہمارے معاشرے میں بہت ناپید ہو چکی ہے لیکن حیران کن بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ یہی کچھ ان کی بیٹی یا بہن یا ماں کے ساتھ کوئی کرے تو وہ مار پیٹ پہ اُتر آئیں گے، لیکن کسی اور کی ماں، بہن یا بیٹی کو ایسا کچھ بھی کہتے ہوئے یا کرتے ہوئے لمحہ بھر بھی پروا نہیں کریں گے۔ یہ کیسی غیرت ہے؟ کیسی انسانیت ہے؟ جو کہ صرف اور صرف اپنے گھر کے لئے ہی نظر آتی ہے؟ دل تو یہ چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو چوک میں الٹا لٹکا دیا جائے لیکن ہم چونکہ قانون دان نہیں ہیں اس لیے ہمارے لئے قانون کو ہاتھ میں لینا بے پناہ پریشانیوں کا سامان پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن مومن ہونے کی سب سے کم حد یہ ہے کہ ایسے معاملات کو دل سے برا جانا جائے۔ اور ایک عورت ہونے کے ناتے سے یقیناً خاص ایکشن لینا بے حد مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

بے حیائی کے اس بازار میں، نہ جانے کب تک ہمارے معاشرے کی عورتوں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہے گا۔ نہ جانے کب تک ایسے لوگ یوں ہی سر عام گھومتے رہیں گے۔ نیز یہ کہ ایسے معاملات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ المختصر۔ ہمیں خدا کا خوف بھی کرنا چاہیے اور پناہ بھی مانگنی چاہیے۔ اور آخر میں میں سب کو یہی تاکید کروں گی کہ آپ سب لوگ احتیاط کیا کریں، ایسے معاملات میں فوراً سائبر کرائم کو خبر کیا کریں جو کہ آج کل بہت ایکٹیو ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے سے اگر ایسے لوگوں کے سامنے کسی ایک کو بھی سبق مل گیا تو سب محتاط ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).