عمران خان کی مخالفت میں تاریخ مسخ کرنے کی مکروہ حرکت


شوکت خانم میموریل ہسپتال کینسر کا ہسپتال ہے جو عمران خان نے 1994 میں لاہور میں قائم کیا۔ یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ عمران خان نے ہسپتال اپنی والدہ محترمہ شوکت خانم کی یاد میں بنایا جو کینسر کی وجہ سے 1985 میں وفات پا گئی تھیں۔ تاہم عمران خان کے لئے ہسپتال بنانے کی تحریک صرف ان کی والدہ کا مرض اور ان کو ایصال ثواب پہنچانا نہیں تھا۔ اس کا اصل سبب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے عمران خان کی گہری عقیدت اور محبت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس راز سے پردہ ہٹا دیا جائے۔

قائد اعظم محمد علی جناح 1948 میں فوت ہوئے تھے۔ اس وقت یہ مشہور کر دیا گیا کہ ان کی موت کی وجہ پھیپھڑوں کا مرض ٹی بی تھا۔ ہم نہیں جانتے اور مؤرخ اس بارے میں خاموش ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ اس وقت میڈیا آزاد نہیں تھا۔ تاہم بعد میں پیش آنے والے واقعات کے تجزیے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سچ چھپانے کی وجہ کیا تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ جب قائد اعظم کی وفات ہوئی اس وقت ملک میں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔

قائد اعظم کی موت کی وجہ ٹی بی نہیں، کینسر کا مرض تھا۔ اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے ایچی سن کالج میں تقریر کرتے ہوئے قومی تاریخ میں شامل اس گمراہ کن جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ عمران خان نے اس سے پہلے یہ بات کیوں نہیں بتائی؟ یا آپ یہ سوچیں کہ اگر عمران خان کو یہ بات پتہ ہے تو ان کے ہم عمر اور تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو کیا یہ بات معلوم نہیں تھی؟ اور اگر معلوم تھی تو انہوں نے اس تاریخی غلطی کی درستگی کیوں نہیں کی؟ ان سوالوں کے جوابات کے لئے درج ذیل حقائق پر غور کریں۔

جس طرح آج علاج کے لئے باہر جانے کی نواز شریف کی درخواست پر حکومت اور حکومتی پارٹی کے کارکنان بجا طور پر اعتراض کر رہے ہیں کہ اتنا عرصہ حکومت کرنے کے باوجود آپ نے دل کے علاج کا ایک ہسپتال بھی نہیں بنایا تو بالکل اسی طرح اس وقت کے مسلم لیگی وزیراعظم لیاقت علی خان بھی سہمے ہوئے تھے کہ اگر لوگوں کو پتہ چل گیا کہ قائد اعظم کینسر کی وجہ سے مرے ہیں اور لیاقت علی خان نے کینسر کا ایک ہسپتال بھی نہیں بنایا تو وہ میرے خلاف ہو جائیں گے۔ لیاقت علی خان نے اسی خدشے کے پیش نظر قائد اعظم کا اصل مرض چھپایا اور مشہور کر دیا کہ ان کی موت کی وجہ ٹی بی ہے۔ کیونکہ ٹی بی کا ہسپتال لاہور میں موجود تھا۔ اگرچہ یہ ہسپتال بھی لیاقت علی خان نے نہیں بنوایا تھا۔

قارئین اس بات سے واقف ہوں گے کہ لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال پھیپھڑوں اور سینے کے امراض کا ہسپتال ہے جو تحریک آزادی کے رہنما، متحرک سیاست دان لالہ لاجپت رائے نے اپنی والدہ کے نام پر قائم کیا تھا۔ محترمہ گلاب دیوی 1927 میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئی تھیں۔

لالہ لاجپت رائے لاہور میں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کے دوران انگریز پولیس کے لاٹھی چارج میں زخمی ہوئے اور اسی وجہ سے کچھ عرصے بعد 1928 میں وفات پا گئے۔ ان کی والدہ کے نام پر زیر تعمیر ہسپتال 1934 میں مکمل ہوا۔

شوکت خانم کے بانی عمران خان قائد اعظم کی وفات کے وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ لیکن انہیں قائد اعظم کے اصل مرض کے بارے میں اس وقت پتہ چل گیا تھا جب وہ آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھے۔ انہیں یہ بات آکسفورڈ کی لائبریری میں کرکٹ پر ایک کتاب کی تلاش کے دوران معلوم ہوئی تھی۔ عمران خان نے اسی وقت قائد اعظم کی یاد میں کینسر کا ہسپتال بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

تاہم جب انہوں نے کینسر ہسپتال بنایا تب بھی وہ قائد اعظم کی بیماری کے بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ اس نواز شریف اقتدار میں تھے۔ اسی لئے عمران خان نے قائد اعظم کے اصل مرض کا کبھی ذکر کیا اور نہ ہی ہسپتال کے نام میں ان کا نام شامل کیا جو وہ دراصل کرنا چاہتے تھے۔

عمران خان جانتے تھے کہ اگر اس وقت حقیقت سے پردہ اٹھا دیا کہ قائد اعظم ٹی بی نہیں بلکہ کینسر کی وجہ سے مرے تھے تو نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت اپنے لیگی وزیراعظم لیاقت علی خان کی غلط بیانی چھپانے کے لئے اس بات کی سرکاری طور پر تردید کروا دے گی۔ اور حکومتی ذرائع مثلاً وزارت اطلاعات کے ذریعے لفافے وغیرہ تقسیم کر کے اس بات کو پراپیگنڈا ثابت کر دے گی۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ سیاسی مخالفت میں بانی پاکستان کی بیماری کے بارے میں جھوٹ بولا گیا۔ اور اس خدشے کے پیش نظر کہ قائد اعظم کی اصل بیماری یعنی کینسر کا ذکر کرنے سے عمران خان کو فائدہ ہو گا، ان کے مخالفین نے قائد اعظم سے ایسی بیماری منسوب کر دی جس کا فائدہ ایک ایسی قوم کے مرے ہوئے لیڈر کو ہوا جس کا نام لینا بھی ہم گوارا نہیں کرتے۔ ہمارے متحرک اور پرعزم سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کہ بہت صاف گو شخصیت کے مالک ہیں، اس دوسری قوم کے حوالے سے ناپسندیدگی کا برملا اظہار بھی کر دیا تھا۔

ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان فی الفور اس تاریخی غلطی کی اصلاح کروائیں گے۔ اس کا آغاز انہیں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے نام میں قائد اعظم کے اضافے کے ساتھ ساتھ نصابی کتب میں بھی اس مغالطے کی تصحیح سے کرنا چاہیے۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ ملک دشمن عناصر اس کام کو نان اشو قرار دیں گے اور معیشت کا رونا روئیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس قوم کو اپنی تاریخ سے دلچسپی نہیں رہتی اس کا مستقبل بھی خراب ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم کو معاشی صورت حال والے پراپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر تاریخ کی درستگی پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ معاشی صورت حال کے حوالے سے وزیر اعظم نے صرف نگرانی کرنی ہے، کام کرنے کے لئے جان پرکنز کی کتاب “کنفیشنز آف این اکنامک ہٹ مین” کے کردار میدان عمل میں آ چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).